رپورٹ:رفیق چاکر
کرونا وائرس کی تباہ کاریوں اور اس سے پیدا ہونے والی خطرات سے کوئی زی شعور انکار نہیں کر سکتا اور اس وقت پوری دنیا میں اس سے پیدا ہونے والی خطرات اور اُن سے نمٹنے کیلئے سائنسدانوں سے لیکر سیاست دان اور دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے افراد کوشاں ہیں کہ اس جان لیوا مرض سے نمٹنے اور اس سے دور رہنے کیلئے کیا کیا جائے اور کون سے اختیاطی تدابیر کو اختیار کیا جائے. کربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والے ممالک نے دوسرے متاثرہ ممالک سے اپنی تمام تر کاروباری سرگرمیوں کو محدود کرکے تمام بارڈرز کو مکمل طور پر سیل کردیاہے اور وہاں بسنے والے افراد کو اُن کے گھروں تک محدود کردیا گیا ہے لیکن ایران سے پروم پنجگور بارڈر کو ابھی تک سیل کرنے کے دعوے صرف جھوٹ اور غلط بیانی تک ہی محدود ہیں.
گزشتہ دنوں فیس بُک پر پروم ایران بارڈر پر میرے ایک پوسٹ پر لوگوں کی شدید رد عمل کو دیکھتے ہی میں نے یہ فیصلہ کیا کہ کیوں نا پروم بارڈر کاصحافتی دورہ کرکے پوزیشن واضح کرلوں تو دو دن پہلے پروم اور پروم سے ملحقہ ایرانی بارڈر کو قریب سے جاکر دیکھنے کا موقع ملا اور یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کی کروناوائرس سے پیدا ہونے والی خطرات کے باوجود ایرانی بارڈر سے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں ایرانی ساختہ دوہزار اور زامیاد گاڈیاں پروم بارڈر سے پروم کے مختلف علاقوں میں داخل ہو رہے ہیں. ایران سے آنے والی گاڈیاں مالکان میں سراوان ،زاہدان سمیت ایران کے دور دراز علاقوں کے رہائشی اپنی گاڈیوں کے ساتھ پروم میں داخل ہو رہے ہیں. پنجگور آنے والی گاڈیوں پر ایک حد تک کمی آئی ہے لیکن پروم میں آج بھی ایرانی ساختہ دوہزار گاڈیوں اور زامیاد کی ایک بڑی تعداد پروم کے مختلف علاقوں میں داخل ہو رہے ہیں جس سے کرونا وائرس کے پھیلنے کے خطرات مزید بڑھ چکے ہیں اور پروم پنجگور کے عوام کو اس مہلک اور جان لیوا مرض سے بچانے کیلئے ضلعی حکومت اور دیگر سیکیورٹی ادارے مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اور پروم میں آج بھی ایرانی ساختہ گاڈیوں سے بھتہ وصولی کاسلسلہ بھی جاری ہے.
علاقہ مکینوں سے ملاقات کے دوران اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ خدشہ ہے کہ ایرانی بارڈر سے آنے والے افراد کی آمدورفت سے علاقے کے لوگ اس خطرناک مرض کا شکار ہو سکتے ہیں اور حکومت کی اس غیرزمہ دارانہ رویہ سے یہ جان لیوا مرض پروم سے مختلف علاقوں تک پھیل سکتا ہے.
Comments