اقبال حسرت بلوچ
یوں تو بلوچستان میں موت کے سایے ہر وقت منڈلاتے رہتے ہیں اور آگ اور خون کا کھیل تھمنے کا نام لیتا تاہم آج کا موضوع کچھ الگ طرح کا ہے- اس وقت بلوچستان طرح طرح کی موذی امراض کی لپیٹ میں ہے جن میں قابل ذکر کینسر , ہیپی ٹائٹس, پولیو اور جلد کی خطرناک بیماریاں وغیرہ شامل ہیں زچہ و بچہ کی سالانہ اموات کی بڑھتی ہوئی خطرناک شرح اس کے علاوہ ہے۔
کینسر جیسی موذی مرض نے کئی گھروں سے انکے چراغ چین لیے ہیں اور آئے روز کسی نہ کسی علاقے سے کسی نوجوان کی کینسر میں مبتلا ہونیکی خبر آجاتی ہے- صوبے کے غریب عوام کیلیے جہاں سر درد کی گولی لینے کے پیسے نہیں وہاں کینسر جیسے موذی مرض کا علاج تقریبا نا ممکن ہے
ایک حالیہ رپورٹ کیمطابق بلوچستان میں 10 ہزار سے زائد کینسر کے مریض ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہے- بی ایم سی ہسپتال کے وارڈ کو سالانہ 7 ملین روپے کی فنڈ ملتی ہے جو ناکافی ہے- ہسپتال میں نہ تو کیموتھراپی کی مشین موجود ہے اور نہ ہی اس مرض کی تشخیص کےلیے خاص آلات دستیاب ہیں- بولان میڈیکل کمپلیکس کے کینسر وارڑ میں روزانہ آٹھ سے دس مریض لائے جاتے ہیں جن میں سے آدھے خواتین ہوتے ہیں۔
ایسے میں جب بھی کوئی کینسر کا کیس سامنے آتا ہے تو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور دیگر زرائع ابلاغ کا سہارا لے کر مذکورہ خاندان کی مدد کیلیے کچھ لوگ میدان میں کھود جاتے ہیں اور کچھ نا کچھ مدد ہو جاتی ہے- یاد رہے گزشتہ ستر سالوں سے بلوچستان کی مختلف حکومتوں نے صحت کی ناگفتہ بہ صورتحال کو اپنی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رکھا اور کینسر کے کسی ہسپتال کے قیام کیطرف کسی کا دھیان جانا تو بہت دور کی بات ہے۔
آئے روز کے کینسر کے کیسوں کے رونما ہونیکی وجہ سے بلوچستان میں یہ مطالبہ زور پکڑتی جارہی ہے کہ صوبے میں کینسر کے علاج کیلیے کوئی میعاری ہسپتال قائم کیا جائے تاکہ صوبے کے غریب عوام کراچی اور لاہور جیسے دور دراز علاقوں کے سفر و اخراجات سے بچ سکیں- مزید یہ کہ صوبے کے زیادہ تر مریض یا انکے لواحقین کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور انکی سفید پوشی اور قبائلی روایات انہیں اس عمل سے دور رکھتی ہیں اور زیادہ تر کیسوں میں مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں
سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر چلنے والی مہم اور آئے روز کی رپورٹ ہونیوالی کیسوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی نے حالیہ انتخابات میں اپنے انتخابی منشور میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے مطالبے کے علاوہ کینسر کے ایک ہسپتال – کا مطالبہ بھی رکھا تھا
اب جبکہ وفاق پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومتیں بن رہی ہیں اور بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف حکومت میں شراکت دار ہوگی تو ضرورت اس امر کی ہیکہ صوبے میں کینسر کا ایک ہسپتال قائم کیا جائے تاکہ صوبے کے غریب عوام کو صوبے ہی میں علاج معالجے کی سہولت دستیاب ہوسکے- پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کو یہ تجربہ بھی ہیکہ کینسر کے ہسپتال کی کیا ضروریات اور اسکی لوگوں کیلیے اہمیت کیا ہے
وقت آگیا ہیکہ بی این پی اپنے مطالبے پر عمل کروائے تاکہ ایٹمی دھماکوں کے نتیجے سے پیدا ہونیوالی اس خطرناک صورتحال پر قابو پایا جاسکے اور بی این پی کی ایٹمی دھماکوں میں کردار کا کفارہ بھی ادا ہوسکے- اسکے علاوہ بی این پی صوبے کے عوام سے کیاگیا اپنا وعدہ پورا کرے- امید کی جانی چاہیے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کی بازیابی کیساتھ ساتھ صوبے میں کینسر کے ایک ہسپتال کے قیام میں اپنا بھرپور کردار ادا کریگی ۔
Comments