پروفیسر غلام دستگیرصابر
یہ 1970 کے الیکشن کے بعد کا واقعہ کہ الیکشن کے بعد بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمیعت علماء اسلام کی مخلوط حکومت بنی۔عظیم بلوچ رہنماسردارعطاءاللہ خان مینگل بلوچستان کے پہلے وزیراعلی منتخب ہوگئے۔جبکہ عظیم سیاستدان بابائے بلوچستان میرغوث بخش بزنجو گورنربلوچستان اور ممتازتاریخدان،ادیب،شاعراور دانشورمیرگل خان نصیروزیرتعلیم بنے۔انھی عظیم شخصیات نے اپنی صرف 9 ماہ کی گورنمنٹ میں بلوچستان یونیورسٹی اور بولان میڈیکل کالج بنایا۔جب یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر کے سلیکشن کامرحلہ آیا تو بابابزنجوکی نگاوں نے ممتازماہرتعلیم اور دانشورپروفیسر کرار حسین کو ڈھونڈھ لیا۔بابا بزنجوجو یونیورسٹی کے چانسلربھی تھے انھوں نے پروفیسرکرارحسین سے درخواست کی کہ آپ بلوچستان آکربلوچستان یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلرکا عہدہ سنبھالیں۔پروفیسر کرارحسین نے گورنربزنجو کی اپیل پرلبیک کہتے ہوئے بلوچستان آئے
پروفیسرکرارحسین کہتے ہیں کہ جب ہماراطیارہ کراچی سے پرواز کرکے کوئیٹہ ائرپورٹ لینڈ کرگیا تو گورنربلوچستان کے عملے نے ائرپورٹ پرمیرااستقبال کیااتفاق سے اسی جہاز میں وزیراعلی بلوچستان سردارعطاءاللہ خان بھی سوار تھے۔جب ہماراقافلہ گورنرہاوس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ گورنربلوچستان میرغوث بخش بزنجو خود گورنرہاوس کے گیٹ پرمیرے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔مجھ سے بغل گیرہونے کے بعدگورنربزنجومجھے گورنرہاوس لے گئے۔چائے پارٹی کے بعد گورنرنے مجھے کہاکہ پروفیسرصاحب آپ فی الحال گورنرہاوس ہی میں آرام کریں۔ جب میں آرام کی غرض سے اپنے کمرے کے لئے نکلا تو گورنربلوچستان نے خود میری بریف کیس اٹھایا اور میرے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔میں شرمندہ ہوااور کہابزنجو صاحب آپ کیاکررہے ہیں آپ گورنربلوچستان ہیں اور میری بریف کیس اٹھاکرمیرے پیچھے آرہے ہیں۔۔تب بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے ایک تاریخی جملہ کہا،،جناب پروفیسرصاحب آپ ایک استاد ہیں جبکہ میں ایک عارضی گورنرہوں۔معلوم نہیں کب گورنری سے فارغ ہوجاوں۔پروفیسر آپ ہمیشہ استاد رہیں گے۔آپ کی حیثیت اور رتبہ مجھ سے بہت بڑاہے۔۔تب کرار حسین جیسے پروفیسر نے بلوچستان کو ایک اعلی یونیورسٹی اور اعلی تعلیم یافتہ نسل دیا۔ بعد میں اسی ادارے میں آغااکبرشاہ،جسٹس رشید،محمدخان رئیسانی ،بہادر خان رودینی سمیت کئی ناموروائس چانسلرآتے گئے۔ساتھ ہی پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی محترم عابد شاہ عابد،واجہ نادر قمبرانی میرعاقل خان مینگل صباء دشتیاری جیسے تاریخی اساتزہ نے یونیورسٹی کو ایک پہچان دی اور آج جاوید اقبال چاچی جسے پروفیسراور ڈاکٹرکہتے ہوئے انسانیت شرماجاتی ہے اسی یونیورسٹی کاوائس چانسلرہے
یونیورسٹی میں گزشتہ چندسالوں سے جوشرمناک،غلیظ،درناک اور انسانیت سوزواقعات ہورہے تھے وہ سب سامنے آرہےہیں۔میں ان پر کچھ نہیں لکھونگا۔بس اتناکہونگاکہ کلیم اللہ تم نے گرلزہاسٹل کے کمرہ نمبر43 یا45 میں جس بیٹی کی عزت پرحملہ کیا۔وہ مجبوربیٹی تعلیم اور روشن مستقبل کے لئے کتنے ارمان لے کرآئے تھے لیکن ظالم تم استادکی روپ میں جنسی درندہ بن کراس فرشتہ صفت بیٹی کی عزت کو تارتارکیا۔سیف اللہ اور نعیم تم نے یونیورسٹی اورگرلزہاسٹل کی باتھ رومزمیں خفیہ کیمرے لگاگرمیری فرشتہ صفت باعزت اورغیرت مندبیٹیوں کی تصاویر اف۔۔بس لعنت ہو تم پر۔اس گھناونے شرمناک اورانسانیت سوزواقعات میں جتنے بھی اساتزہ،آفیسرز،یا اسٹاف نے اپنا منہ کالاکیا وہ تو درندے ہیں ا نکو جتنی بھی سزامل جائے کم ہے ۔بس ایک بات واضح ہے کہ جاوید اقبال،کلیم اللہ سیف اللہ وغیرہ تم بھی بیٹیوں کے باپ اور بہنوں کے بھائی ہو۔اگرتم جیسے کچھ درندے یہاں رہتے ہیں تو بے شماراعلی اور باشعورانسان بھی یہاں رہتے ہیں۔آج بھی اس ادارے میں 95 فیصد انتہائی قابل علم دوست ترقی پسند پروفیسرز موجود ہیں ۔ خیراورشر،رحمان اورشیطان کامقابلہ ابد سے ازل تک جاری ہے۔ہم رجائیت پسندہیں۔ہم وعدہ نہیں کرتے بلکہ قسم کھاتے ہیں کہ ہم نہ صرف اپنی بیٹیوں اوربہنوں کو پڑھاہیں گے بلکہ تمہاری بیٹیوں کو بھی پڑھاہیں گے
جاوید اقبال چاچی تم نے لیکچرارسے وائس چانسلر تک بلوچستان کانمک کھایا۔بلوچستان کی روٹی کھائی بلوچستان نے تم کوعزت دی بلوچوں کا قول ہے،،ایک کٹورا پانی سو سال وفا،، اور تم نے بلوچستان کی باپردہ بیٹیوں کی عزت کو تارتار کیا لیکن ہم قسم کھاتے ہیں کہ تیری بیٹی کی عزت ہم تجھ سے زیادہ کریں گے۔اور تیری بیٹی کو ہم تعلیم دیں گے۔کیونکہ ہم انسان ہیں۔کلیم اللہ تم نے گرلزہاسٹل میں جس بیٹی کی عزت پر حملہ کیا۔جس کی درناک چیخیں اب تک گونج رہی ہیں۔ہم قسم کھاتے ہیں کہ تیری معصوم اور باپردہ بیٹیوں اور بہنوں کی عزت ہم اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی طرح کریں گے۔سیف اللہ اور نعیم تم نے شیطان بن کر ہماری باپردہ اور معصوم بہنوں اور بیٹیوں کی باتھ رومز میں خفیہ کیمرہ لگاکر جو بے غیرتی کی۔ہم قسم کھاتے ہیں کہ جس نے بھی تم لوگوں کی بیٹیوں اور بہنوں کو بری نظرسے دیکھنے کی ہمت کی ہم ان کی آنکھیں نکال دیں گے ۔کیونکہ ہم انسان ہیں۔بس تم میں اور ہم میں اتنا فرق ہے۔ہم تمہاری بیٹیوں اور بہنوں کو اپنی بیٹیاں اور بہنیں سمجھتے ہیں۔ہم نواب بگٹی کی طرح سب کی بیٹیوں کی حفاظت کریں گے۔ ہم بابا بزنجو باباعبدالصمدخان اچکزئی شہید،سردار عطاءاللہ،مولوی عرض محمد علامہ عبدالعلی عشے زئی،باباباچاخان،دیگر نامور سیاسی و مزہبی اکابرین اورشہدا کے وارث ہیں۔ہمارے اکابرین نے اپنے خون اور پسینے سے یہ یونیورسٹی بنائی۔ہم قسم کھاتے ہیں کہ ہم نہ صرف اپنے بیٹوں بلکہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو اسی یونیورسٹی میں پڑھاہیں گے۔بلوچ،پشتون،ہزارہ،پنجابی،حتی کہ اقلیتوں کی بیٹیاں سب ہماری بیٹیاں ہیں۔ہماری عزت ہیں۔
اور جنھوں نے جو شیطانی حرکت کی ان کی بیٹیوں اور بہنوں کو اپنی بیٹی اور بہن سمجھ کر پڑھاہیں گے۔کیونکہ ہم انسان ہیں
نوٹ: ادارے کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Comments