کوئٹہ: اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے پوائنٹ آف آرڈر پر ڈپٹی سپیکر کی توجہ پی ایس ڈی پی کے حوالے سے بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ نے بلوچستان کی پی ایس ڈی پی پر جو فیصلہ دیا ہے اس کا اطلاق پورے صوبے پر ہوتا ہے یہ ایک اہم مرحلہ تھا مگر 20اگست سے لے کر اب تک اس پر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کیا گیا حالانکہ اجلاس بلا کر اس میں اس اہم مسئلے پر بحث ہونی چاہئے تھی ۔
انہوں نے ڈپٹی سپیکر سے استدعا کی کہ چار ستمبر سے 12ستمبر کے درمیان اسمبلی کا اجلاس بلا نے کی رولنگ دیں تاکہ اس سیشن میں پی ایس ڈی پی پر اس ایوان میں صوبے بھر کے موجود نمائندے بات کرسکیں ۔اس وقت بلوچستان میں غربت پسماندگی سمیت تعلیم صحت پینے کے صاف پانی کی سہولیات کا فقدان ہے غذائی قلت اہم مسئلہ ہے اس سمیت تمام مسائل پر ارکان بہتر تجاویز دے سکیں گے جس سے ایک بہتر پی ایس ڈی پی بنانے میں مدد ملے گی ۔ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ آج کا اجلاس صرف بلوچستان اسمبلی کے ایوان کو صدارتی اور سینٹ انتخابات کے لئے پولنگ سٹیشن قرار دینے کے لئے ہے۔لہٰذا اسے یہ کام کرنے دیا جائے۔
ثناء بلوچ نے کہا کہ ہم صوبے میں ایک نئی روایت قائم کرنا چاہتے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ کابینہ کے فیصلوں کو عوام میں پذیرائی نہیں ملتی اگر پی ایس ڈی پی پر عوام کے تمام منتخب نمائندے یہاں پر بحث کریں تجاویز دیں تو زیادہ بہتر ہوگا جس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ اس پر بحث کے لئے طریقہ کار موجود ہے ۔اجلاس بھی ارکان کی ریکوزیشن پر ہی بلایا جاسکتا ہے وزیراعلیٰ میر جام کمال خان نے کہا کہ کابینہ اور ایوان دونوں کا بڑا اہم کردار ہے تاہم اسمبلی سے بڑا کوئی ادارہ نہیں اس ایوان میں حکومت اور حکومتی ادارے ارکان کو ہر محکمے کے حوالے سے جوابدہ ہیں ۔مگر اس کا بھی ایک طریقہ کار ہے ارکان تحریک التواء ، قرار داد، سوالات ، عوامی مفاد کے نکتے پر کوئی بھی مسئلہ اٹھاسکتے ہیں تاہم بہتر طریقہ کار یہ ہے کہ ایوان کی قائمہ کمیٹیاں ہوتی ہیں جن کے نیچے سب کمیٹیاں بھی ہوتی ہیں پی ایس ڈی پی پر بات اور نظرثانی بھی ہوسکتی ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ایوان کے قواعد کے مطابق طریقہ کار اختیار کیا جائے ۔جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے اجلاس صدارتی انتخابات کے لئے 4ستمبر کی صبح دس بجے تک ملتوی کردیا ۔
ویب ڈیسک
Comments