زرک میر
مہر گڑھ کے میدانوں سے اس بار پرکاڑی پاوالی قافلے گندم کی بوئی (خولم نا لاب) کو مکمل کر کے تیز تیز قدموں سے کوہ آماچ کے لئے روانہ ہو گئے تھے .اس بار نئی امیدوں خواہشات اور ارادوں کو لے کر کوہ آماچ کے پرسکون اور ٹھنڈے دامن میں اپنے ان تہذیبی سرگرمیوں کے انجام آوری کے خوشگوار خیالات اور سوچوں کو لے کر یہ قافلے گاڑیوں اونٹوں اور پیدل درہ بولان میں داخل ہو گئے تھے ۔
جمیل جان کی شادی ہو گی شار خاتون کے ہاتھوں پر مہندی کا لال رنگ سجے گا .بخت بی بی کیلئے علی احمد کا رشتہ (رسال )کیلئے بھی کوہ آماچ کے ہنکین کا ارادہ باندھا گیا تھا . یہ پرکانی قافلے کوہ آماچ کے دامن میں آکر آباد ہو گئے تھے .جیسے کے مہر گڑھ کے میدانوں میں آباد ہوتے ہیں .ان کی بھیڑیا(خرما) سے شناسائی اور مڈبھیڑ کوئی انہوئی بات نہیں ہوتی .مہر گڑھ ہو یا بولان کے سنگلاخ پہاڑ یا پھر آماچ کا پہاڑ ان پہاڑوں کے بھیڑیوں سے ان پاوالیوں (خانہ بدوشوں) کی شناسائی ان کی ثقافت کا حصہ ہے جوکہ گوریلہ طرز پر حملہ آور ہوتا ہے .ریوڑ کوبھیڑیئے سے بچانے میں اس خانہ بدوش شوہان کی حکمت عملی اور حفاظتی انتظامات کا کوئی ثانی نہیں .علاقے میں بھیڑیئے کی موجودگی کا بھی چھٹی حس سے معلوم کرنا ان کا ہنر ہوتا ہے .یہ سوتے میں بھی بھیڑیئے کے قدموں کی چھاپ سن لیتے ہیں اور ریوڑ کی حفاظت کیلئے اپنی موٹی لاٹھی کو تیر کی مانند استعمال کرتے ہیں جو اگر نشانے پر ٹھیک بیٹھ جائے تو بھیڑیا جیسا سخت جان جانور پانی بھی نا مانگے .اس لاٹھی کی وار (لٹ انا لوڑ) کبھی خالی بھی نہیں جاتا . ان کی عقابی نظریں اور رات کی گٹھا ٹوپ اندھیروں میں بھی دنبے اور بھیڑیئے کی سفیدی میں امتیاز کر سکتی ہیں .شوہان اکثر بھیڑیئے (خرما) کو نامراد کردیتا ہے .. براہوئی کے اس بے مثال متل کے خالق یہی شوہان ہیں کہ “خرما اڑدے بٹور کمپک ”
لیکن
لیکن
لیکن اس ان خانہ بدوشوں کی ایک بڑی ٹولی پر کوہ آماچ کے اس پار ایک نئے طرز کے بھیڑیئے کا حملہ تھا جس کی نہ تو قدموں کی چھاپ ان پاوالیوں کے کانوں پر پڑی سنائی دی.اور نہ ہی لاٹھی کے وار کا کوئی موقع ملا اور نہ ہی اس بھیڑئیے کی چمڑی کی پہچان ہو سکی جو آہستہ سے ان کے درمیان میں گھس گیا تھا .آفت ایک یا دو پر نہیں پڑی بلکہ پورے گروہ پر پڑی سینکڑوں جمیلوں اور علی احمدوں کو اپنے خونخوار دانتوں سے لمحوں میں چھیر پھاڑ ڈالا.
عینی شاہدین کے مطابق اس خونخوار بھیڑیئے کے دانت شار خاتون اور بخت بی بیوں کے بختوں قسمتوں اور زندگیوں کے خون سے رنگین تھے.جو آماچ کے اس پار غائب ہو گیا ۔
Comments