تحریر: سردار ناصر محمدشہی
قبائلی نظام کا معاشرے میں کوئی مول نہیں اگر قبائلی سربراہ شریعت کے عین مطابق فیصلہ کرے تو لوگوں کو اس سے آسان، سستا اور جلد انصاف مہیا ہوسکتا ہے ۔ اگر قبائل کے سربراہ نیک دیندار ہو اس کے انصاف کے راہ میں کوئی چیز بھی رکاوٹ پیدا نہیں کر سکتا مگر افسوس اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسا بہت شاز و نادر ہی ہوگا۔
کئی سال پہلے قبائلی سربراہان سخاوت اور سچے ہونے کی وجہ سے اپنے و دیگر اقوام میں کھانے پینےکی اشیاء حتی کہ اراضیات بھی دے دیتے تھے تاکہ ان کی زندگیوں میں آسانی ہو جیسے پھلدار درخت خود پھل نہیں کھاتا دریا خود پانی نہیں پیتا کیونکہ اصل زندگی یہی ہے کہ دوسروں کو سیرآب کریں دوسروں کو خوشی دیں مگر بعض اج کل تو اپنے ہی بھائی کے اراضیات پر قبضہ کرتے ہیں ان کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔
قبائلی نظام میں کوئی خرابی نہیں ہے جیسا کہ آج کل میڈیا کے ذریعے سے پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہےاگر خرابی ہے تو کسی فرد میں ہے نظام میں نہیں۔ اسی قبائلی نظام کی وجہ سے بلوچستان کے قبائلی نظام کو توڑنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ اج کل انصاف سرمایہ دار کی لونڈی ہے چاہے عدالت میں ہو یا کسی سربراہ کے بھیٹک میں۔ ظاہر ہے وہ لوگوں کو اچھاانصاف فراہم نہیں کر رہے ہیں جس سے قبائلی نظام میں خلل پڑ رہا ہے لوگ ایک دوسرے سے دست گریبان ہو رہے ہیں ان کا حساب ان ہی کو اس دنیا میں اور روز محشر دینا ہوگا جو قبائلی سربراہ اللہ پاک کے رضا کے خاطر کی نیک نیتی سے حق پر فیصلہ کرتے ہیں اللہ پاک دونوں جہانوں میں ان کو سرخرو کرے گا۔
اسلام ہمارا دین ہے دین کے راہ پر چل کر دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں ۔ قبائل میں بہترین وہ ہے جو حق کی بات کرے اور سچ کا ساتھ دے نہیں تو سر پے دستار چند گز کپڑے کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتا بہترین انصاف بہترین معاشرے کا حسن ہوتا ہے ہمارا حسن اصل قبائلی نظام ہے
Comments