Latest News

ایچ ای سی کی آن لائن کلاسیں اور بلوچستان کے سراپا احتجاج طلباء

تحریر۔ اقبال بلوچ

جیف اینڈرسن کی عمر 59 سال ہے، وہ امریکہ کے معروف یونیورسٹی ہوبرٹ اور ولیم سمتھ کالج جنیوا نیویارک میں انتھروپولوجی کے پروفیسر ہیں۔ کوویڈ-19 وباء کے امریکہ میں پوٹنے سے جہاں روز مرہ زندگی کے دیگر شعبہ جات متاثر ہوئے ہیں وہیں جیف کی تدریس کے عمل میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں۔ کرونا وائرس کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر وہ اب یونیورسٹی نہیں جاسکتے کیوں کہ پورے ملک میں ہنگامی صورتحال نافذ اور مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ “میں جب پارکنگ سے اپنے فیکلٹی تک پیدل چل کرجاتا ہوں تو خوف محسوس کرتا ہوں” اینڈرسن کے الفاظ۔ اب جیف اینڈرسن کو یونیورسٹی اور ولیم سمتھ کالج نے پیشکش کی ہے کہ وہ اپنے گھر سے ہی آن لائن کلاسوں کا انعقاد کریں۔ جیف کیلیے یہ تجربہ نیا نہیں ہے کیونکہ امریکی عوام کا ایک بڑا حصہ گھر بیٹھے آنلائن کام کرلیتی ہے۔ تاہم اینڈرسن کے بقول اس میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن میں کنیکشن کے مسائل سے لیکر طلباء کی حاضری اور موثر ابلاغ جیسے مسائل شامل ہیں۔ یاد رہے امریکہ میں اسوقت فائیو جی انٹرنیٹ مستعمل ہے۔ لاکھوں امریکی اس وقت کوویڈ-19 کی وجہ سے گھروں سے کام کررہے ہیں بعض امریکیوں کے خیال میں یہ بہت پرسکون اور سہل طریقہ کار ہے اسے عالمی وباء کے بعد بھی جاری رہنا چاہیے تاہم طلباء و طالبات اور دیگر بعض افراد کے نزدیک یہ صبر آزما اور کٹھن کام ہے۔ تاہم وہ کام کیلیے تیار نظرآتے ہیں۔

امریکہ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک اس وقت گھر بیٹھے کام اور طلباء آنلائن کلاسیں لے رہی ہیں۔ تاہم پاکستان بالخصوص بلوچستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔

چاکر کا تعلق بلوچستان کے شورش زدہ علاقے تربت سے ہے۔ یہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ایم فل کررہے ہیں۔ چاکر پچھلے کئی سالوں سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور صوبہ پنجاب کے مختلف کالجوں میں پڑھتے رہے ہیں۔ یہ اپنی گزر بسر کیلیے شام کے اوقات میں بچوں کو اسٹیٹس اور ریاضی کی ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔ ملک میں کرونا وائرس کے کیسوں کے سامنے آتے ہی چاکر کے جامعہ سمیت ملک کے تمام تعلیمی ادارے تادم تحریر بند کردیے گئے ہیں۔ اب ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے امریکہ و دیگر ممالک کی طرح طلباء و طالبات کے قیمتی وقت کو ضائع ہونے سے بچانے کیلیے آنلائن کلاسوں کا اجراء کیا ہے۔

    چاکر کے بقول “میرے آبائی گاؤں تربت میں فروری 2017 سے تری جی سروس سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر معطل ہے۔ ہمیں یونیورسٹی کی طرف سے ہدایات دی گئی ہیں کہ آنلائن کلاسوں میں اپنی حاضری یقینی بنائیں۔ تربت سمیت بلوچستان کے 14 اضلاع میں تری جی گزشتہ کئی سالوں سے بند ہے۔ صرف ضلعی ہیڈکوارٹروں میں پی ٹی سی ایل کی انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے جو کہ صرف تین مربع کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے۔ سرکاری دفاتر کے علاؤہ بہت کم لوگوں کو پی ٹی سی ایل کی کنیکشن میسر ہے ایسے میں کس طرح سے ہم آنلائن کلاسوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔”

ملک کے دیگر حصوں خصوصا خیبر پختونخوا گلگت بلتستان سے بھی آنلائن کلاسوں کے بائیکاٹ اور طلباء کے احتجاج کی جبریں آرہی ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے تقریبا تمام اضلاع میں طلباء و طالبات کو آنلائن کلاسیں لینے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان بھر کے طلباء اپنا احتجاج ریکارڈ کروارہے ہیں۔۔ ضلع قلات میں قائم طلباء کی جانب سے کیمپ میں اظہار خیال کرتے ہوئے طالبعم رہنماء علی بلوچ نے کہا کہ نہ صوبائی حکومت کو ہمارے مشکلات کا احساس ہے اور نہ ہی ایچ ای سی ہماری بات سمجھنے کی کوشش کررہی ہے۔ قلات میں گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے انٹرنیٹ اور تری جی سروس معطل ہے۔ ایسے میں دور دراز علاقوں کے طلباء کیلیے آنلائن کلاسیں لینا ناممکن ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ صوبائی حکومت تری جی سروس کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرے اور ایچ ای سی کو قائل کرے کہ وہ آنلائن کلاسوں کا سلسلہ فوری طور پر ملتوی کریں۔ علی بلوچ کےمطابق انکا احتجاج تری جی سروس کی بحالی تک جاری رہے گا۔

بدقسمتی سے حکمران اپنے عوام کو خواب مغرب کے دکھاتے ہیں جب کہ حقیقتا عوام قرون وسطیٰ میں رہنے پر مجبور ہے۔ حکومت اس وبائی صورتحال میں بجائے عوام کو ریلیف دینے کے ان کیلیے نئے مسائل پیدا کررہی ہے۔ بلوچستان کے عوام بالخصوص نوجوان طبقہ حصول علم کیلیے صوبہ پنجاب،سندھ سمیت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جامعات اور کالجوں تک جاتے ہیں۔ لہذا موجودہ صورتحال میں ان کے جاری احتجاج کو کام چور بگھوڑا پن جیسے القابات سے نوازنے سے پہلے انکے مطالبات پر غور کیاجائے۔ اکیسویں صدی کا پہلا ربع اختتام کو آیا چاہتا ہے۔ دنیا فائیو جی سے آگے کی سوچ رہی ہے اور بدقسمت بلوچستان کے طلباء اور عوام تری جی کی بحالی کیلیے سڑکوں پر احتجاج کررہی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فی الفور پورے بلوچستان میں انٹرنیٹ سروسز بحال کرے بصورت دیگر ایچ ای سی کو قائل کیا جائے کہ بلوچستان کے پی اور گلگت بلتستان کے طلباء کو یاتو اس سے استثنیٰ دیا جائے یا پھر سمسٹرز کو آگے کردیا جائے تاکہ طلباء کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو۔ اس سلسلے میں ایک مربوط و جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جو قابل عمل بھی ہو اور جو تمام صوبوں کے طلباء کیلیے آسانیاں کا باعث بنے

Comments
Print Friendly, PDF & Email