فیصل آغا
یہ سوچ کر نہ مائل فریاد ھم ہوئے ….
آباد کب ہوۓ تھے کہ برباد ہم ہوئے…
جیسے ہی کانوں میں یہ قاتلانہ الفاظ پڑے کہ ” شاہ جی ہم سے رخصت ہوگئے ” تو یہ زہر بن کر دل و دماغ کو چیرتے ہوئے روح کے تھہ تک پہنچے اور جسم پر سکنہ طاری ہوا ، ضبط ٹوٹ گئے ، سانسوں پر ضرب لگی ،ہاتھوں نے ساتھ چھوڑ دیا ، اعصاب چٹخنے لگے اور خیالات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ جو کہ طوالت سفر میں غم کے المناکیوں کو انتہاء تک پہنچانے تک نہ تھم سکا ۔ درد ناک ماضی اور مشکلات سے دوچار مستقبل کے مغموم خیالات نے ڈیرے ڈالے ذہن ماضی کے درد بھرے مگر متحرک باب کھل گیا جو کچھ یوں ہے :
چھ عشرے قبل معاشی بحران سے دوچار ، مفلوک الحال زندگی سے بے بس ہو کر اور تجسس زندگی میں جب ایک ” سید ” خاندان اپنے آبائی علاقے “گلستان ” قلعہ عبداللہ سے نکل کر خضدار کے طرف بڑھتا ہے ۔ وہاں چند مشکلات بھرا عرصہ گزار کر معاشی سکہ نہیں چل سکا ۔ قافلہ کوچہ خوانین ، ریاست قلات کے طرف امیدیں وابستہ کر کہ نکل پڑا ۔ یہاں سے ہمت و استقلال کے عہد کے سبب دادا بزرگوار نے تجارت کے طرف قدم بڑھائے اللہ پاک نے وقتاً فوقتاً نعمت اولاد سے نوازا ۔ سن بلوغت کو عبور کرتے ہی بیٹے تلاش معاش میں نکلے ۔ دور تاریک میں بھی تعلیم کا فطری تجسس کم نہ ہو سکا اور چاروں بھائی روزگار کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتے رہے ۔ جب زندگی میں نکھار آنے لگی تھی ۔ جیسے تیسے زندگی مشکلات کا ثمر دینے لگی تھی کہ سب سے اہم وکٹ گر گئے ۔یعنی بڑے بھائی شباب جوانی میں موت کا مے پی گئے ۔اور خاندان کو گہرا زخم پہنچا ۔ اب ساری ذمہ داری والد صاحب کے کندھوں پر پڑھا ۔ اسی اثناء ان کے والدین بھی ساتھ چھوڑ گئے اور چھوٹے بھائیوں کی کفالت اور تعلیم بھی ذمہ داری بن گئی ۔ سب سے چھوٹے بھائی ( مرحوم ) ” سید شوکت علی شاہ ” تھے جو کہ مستقبل میں کم عرصے میں ایک شمع روشن کہ طرح ابھرے اور غروب آفتاب کی طرح اُترے ۔
شوکت علی شاہ نے جیسے ہی دور جوانی میں قدم رکھا زندگی اور معاشرے کے بے سروسامانی سے بے نیاز ہو کر مسلسل جدوجہد میں مگن رہا ۔ ایک طرف غربت و افلاس سے دوچار ، دوسری طرف احساس معذوری اور ایسا خاندان جہاں علم کی شمع جلنے کی روشنی نہ ماضی میں چمکی تھی نہ ابھی ۔ خودداریت کے سبب این ۔جی اوز میں بھی خدمات سرانجام دئیے ۔ اس کے علاوہ دوکانداری اور ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھا تھا ۔ اسی دوران نیک دوستوں کے سبب انگلش لینگوئج سینٹرز سے وابستگی پڑی جو کہ اس کے راہ ہمواری کا سبب بنا ۔
کم ہی عرصے میں وہ انگلش سیکھ کر سکھانے کے میدان کا سپہ سالار بن گیا ۔ علم کی خوشبو بکھیرتا گیا ۔ قلات کے پسماندگی کو مد نظر رکھ کر وہ اور ان کے دوسرے قابل قدر ساتھی محنت اور زیادہ کرنے لگے ۔ بالآخر سکھانے میں کامیاب ہوئے ۔ ان کے شاگرد اس قابل ہوئے کہ پڑھا سکے ۔ یوں ایک سلسلہ چل پڑھا اور چلنے لگا ۔ اور موٹروے پولیس میں بطور اسسٹنٹ بھرتی ہوئے ۔ موجودہ دنوں سپریڈنٹ کے عہدے پر فرائض سرانجام دے رہے تھے ۔
اسی وژن کو آگے بڑھانے کی سعی میں انہوں نے لرننگ وژن اکیڈمی کی بنیاد رکھی ۔ دن رات اسی فکر میں مشغول رہے کہ کیسے اچھے سے اچھے طریقے سے غریب اور پسماندہ طلباء کو ترقی کہ راہ پر گامزن کر سکے ۔ ذاتی لگن ، فکر مسلسل اور بہترین منیجمنٹ کے نتیجے میں کم وقت میں ایک بہترین ادارے کو فروغ دیا ۔ نہ پیسوں کی لالچ اور نہ کوئی ذاتی مفاد ۔
بارہاں فرماتے تھے ” میرا ذاتی کوئی مقصد نہیں نہ ہی ضرورت ہے ۔یہ سب آپ جوانوں کے لیے کر رہا ہوں ” ۔ اب ان کے بچھڑنے کے بعد لگتا ہے کہ واقعی انہوں نے یہ ہم جوانوں کے لیے کیا ۔ ذاتی حیثیت سے لاکھوں کا انویسٹمنٹ کر کہ صرف ادارے کے قیام کو ممکن بنایا ۔ سینکڑوں غریب اور مستحق افراد کو غریب پیکج کے نام پر بغیر فیس کے ادارے میں تعلیم دلواتے ۔ وقت کے اتنے پابند کے کلاس کی وجہ سے کبھی دن کا کھانا نصیب نہیں ہوا ۔ ان کے وجہ سے مجھ جیسے سینکڑوں طلباء بولنے اور لکھنے کے قابل ہوئے ۔
وہ حوصلہ دیتے ، تھپکی دیتے اور اعتماد دیتے ۔ بیک پر کھڑے رہتے گرتے ہوئے کو اٹھاتے ۔ ذمہ داری لیتے ۔
انتہائی ہمدرد ، دکھاوے اور شہرت کے پکڑ سے دور تھے ۔ اہم عہدوں پر رہنے کے باوجود کبھی تکبر کے طرف نہیں بھٹکے ۔ افسر شاہی سے دور ، ہمیشہ مفلوک الحال لوگوں سے دوستی کی ۔پسے ہوئے طبقے کے درد کو اپنا سمجھتے تھے ۔ وہ کہاں کرتے تھے ، ” غرباء دوستی کے معیار پر اترتے ہیں ، باقی سب اپنے مفاد کے ہوتے ہیں ” ۔ اسی لئے آخری دنوں میں خلوت کو پسند کرتے تھے ۔
منکسرالمزاج شخصیت ، جب ہنستے تو قہقوں کی گونج سے کئی چہرے چمک اٹھتے ، جب غصے کا اظہار کرتے تو سامنے والے کو رعب سے مانوس کر کہ رہتے ۔ سارے جہان کا غم دل میں سنبھال کر کسی پر ظاہر نہ کرتے ۔
سادہ دل ، صاف گو ، حساس طبیعت کے مالک ۔ جو سوچتے وہ بولتے ۔ جو ارادہ کرتے حاصل کر لیتے ۔
نہ کسی کی دل آزاری کے سبب بنے اور نہ کسی سے ناراض ہوئے ۔
ایک شہر کو ویران کر گئے ۔ روشنی کا چراغ بجھ گیا ۔
حوصلے کا پہاڑ ٹوٹ گیا ۔ سینکڑوں کو بے سہارا کر کے روٹے ۔ یادیں چھوڑ گئے ۔ غم بھری یادیں ، دکھ بھرا داستان ۔
ایک ایسی خلاء جو کبھی پُر نہ ہوسکے ۔ ایک ایسا کردار جو کبھی نہ مٹ سکے ۔ ایک احساس ، ایک فکر کی طرح دلوں میں زندہ رہنے والے ۔
ایک ضبط جو ٹوٹ گیا ، ایک سلسلہ جو رُک گیا ۔
بے ترتیب زندگیوں کو ترتیب دینے والے ۔
مایوسی کے شاموں میں روشنی دکھانے والے ۔
زندگی کے ناانصافیوں سے بیزار ۔
جہد مسلسل ، اخلاص اور انصاف پر عملی یقین رکھنے والے عظیم استاد ، محسن اور چچا کے روپ میں مسیحا عمر کے سینتیس بہاریں گزار کر ہم پر ہمیشہ کے لئے خزاں چھوڑ گئے ۔
وہ جو تعمیر ہونے والی تھی !!!
لگ گئی آگ اس عمارت میں !!!
Comments