تحریر: اسد رند
اوستہ محمد بلوچستان کے اوستہ محمد ضلع کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ یہ شہر سطح سمندر سے 134 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ اس شہر ک نام سخی ملا محمد خان اوستہ کے نام پر رکھا گیا۔ کالم نگار ببرک کارمل صاحب لکھتے ہیں کہ اوستہ محمد 1850 میں آباد ہوا۔ اوستہ کو اگست دو ہزار بائیس میں ضلع کی حیثیت ملی جس کے دو تحصیل ایک “اوستہ” اور دوسرا تحصیل “گنداخہ” ہے، اوستہ پہلے جعفر آباد کی تحصیل تھی۔ اوستہ محمد شہر کی آبادی تین لاکھ سے زائد ہے۔ کاروباری حیثیت سے یہ بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ زرخیز زمینوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے، اس شہر میں ایک سو چاول کے کارخانے اور ساٹھ سے زائد پٹرول اسٹیشنز ہیں۔ بجلی کی کمی کی وجہ سے کارخانوں اور پٹرول پمپز کے مالکوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ درختوں کی کمی کی وجہ سے اس شہر میں شدید دھوپ، گرمی اور سردی پڑتی ہے۔ یہاں کے لوگ مہمان نوازی کے لئے مشہور ہیں۔ اوستہ محمد مختلف اقوام اور مذہبوں کے لوگوں کی بساط رکھتا ہے، جن میں سب سے زیادہ تعداد بلوچوں کی ہے دیگر اقوام میں سندھی، پشتون، پنجابی اور دیگر اقوام شامل ہیں۔ یہاں کے رہائشی مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ مذہبوں کی بھی بڑی تعداد ہے۔ اس شہر میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں بلوچی، براہوی، سندھی، سرائیکی، اردو اور دیگر چھوٹی زبانیں شامل ہیں۔ اوستہ محمد میں ہندو بھائی بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو شہر کے کاروبار کے تقریباً پچاس فیصد حصے کے مالک ہیں۔ وہ اپنی مذہبی رسومات کو بہت آسانی سے ادا کرتے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ کچھ سال پہلے، اوستہ محمد کی حالات خراب ہونے کی وجہ سے ہندو برادری کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس میں اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور ڈکیتی کے واقعات شامل تھے، جس کی بنا پر کئی ہندو پاکستان سے بھارت کو ہجرت کر گئے تھے۔
یہ چھوٹا سا شہر ایک بھرپور تاریخ رکھتا ہے، جس میں جدوجہد، لچک اور بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کی کہانیوں سے بُنی ہوئی ٹیپسٹری ہے۔ تاہم، اس کے دیہی دلکشی کی سطح کے نیچے ایک تلخ حقیقت چھپی ہوئی ہے۔ کئی دہائیوں سے، ایک جاگیردار خاندان نام نہاد انتخابات کے ذریعے اس شہر پر حکومت کرتا رہا ہے، جو ترقی اور خوشحالی کا وعدہ کرتا ہے۔ اس کے باوجود، تلخ حقیقت ہے کہ اوستہ محمد بدستور نظر اندازی اور محرومی کی حالت میں پھنسا ہوا ہے اور اوستہ کے شہری دنیا سے کئی دہائیاں پیچھے ہیں۔ آج، ہم اس بھولے بسرے شہر کی حالت زار پر روشنی ڈالتے ہیں، جہاں ضروری خدمات عیش و عشرت ہیں اور وعدے خالی بازگشت میں بدل چکے ہیں۔
اُنیس سو اڑتالیس میں بلوچستان پاکستان میں شامل ہونے کے بعد سے اوستہ محمد ایک ہی جاگیردار خاندان کے زیر تسلط ہے گویا ریاست کے اندر ریاست جہاں چپڑاسی سے لے کے اعلٰی افسر کا تبادلہ یا پوسٹنگ محترم خاندان کی خواہش سے ہوتا ہے۔ جمہوریت کے نام پر اس قصبے نے انتخابات کا ایک سلسلہ دیکھا ہے، جس میں اقتدار خاندان کے ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل کیا گیا ہے۔ تاہم، یہ انتخابات قصبے کی تقدیر پر ایک ہی خاندان کے تسلط کے تسلسل کو چھپاتے ہوئے محض ایک چہرے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
وقت گزرنے کے باوجود اوستہ محمد کی حالت حیران کن طور پر جمود کا شکار ہے۔ ترقی پزیر معاشرے کے لیے ضروری بنیادی سہولیات یہاں محض خواب ہیں۔ پینے کے پانی کی عدم دستیابی اور قابل اعتماد زرعی وسائل کی کمی نے قصبے کے مکینوں کو شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے اور تعلیمی ادارے تو آپ کو دوربین میں بھی نظر نہیں آئینگے۔ انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدے فراموشی میں ہمیشہ کی طرح ڈھل جاتے ہیں، جس سے لوگوں کو روزمرہ کی زندگی کے مشکل مسائل کے درمیان خود کو سنبھالنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔
اوستہ محمد کے مکین مایوسی کا شکار ہوگئے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کے نمائندے صرف الیکشن کے موسم میں ہی نظر آتے ہیں۔ ایک بار جب ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور سیٹیں حاصل ہو جاتی ہیں تو یہ نام نہاد منتخب نمائندے پانچ سال کیلئے لاپتہ بلوچ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں۔ عوام کی امیدوں اور امنگوں کو اگلے انتخابی چکر تک ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے، جب انہیں ایک بار پھر اقتدار کے کھیل میں پیادوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اوستہ محمد کی انتظامیہ کی ناکامی شہر کے بنیادی ڈھانچے کے ہر پہلو سے دیکھی جا سکتی ہے۔ تعلیمی ادارے مناسب وسائل کے کمی کا شکار ہیں اور نوجوان نسل کو معیاری تعلیم کے حق سے محروم کر رہے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم دوست نوجوان مجبورنً دوسرے صوبوں میں جاتے ہیں۔ زرعی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے رہائشیوں کو تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لیے کوئی زرعی یونیورسٹی تو کیا کوئی اور یونیورسٹی بھی نہیں ہے۔ صحت کا نظام درہم برہم ہے، ہسپتالوں میں ضروری سامان اور طبی عملے کی کمی ہے زچگی اور بچوں کی شرح اموات انتہائی زیادہ ہے، نا صرف بلوچستان بلکہ پاکستان میں سب سے زیادہ ہیپاٹائٹس بی اور سی یہاں پایا جاتا ہے۔ زرعی شعبہ، جس پر یہ ضلع بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، آبپاشی کے نظام یا جدید کاشتکاری کی تکنیکوں کے لیے کوئی معاونت نہیں۔ کام کرنے والے سرکاری محکموں کی عدم موجودگی اس زوال کا ثبوت ہے جس نے اوستہ محمد کو کافی عرصے سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
تاہم، اندھیرے کے درمیان، افق پر امید کی چمک دیکھی جا سکتی ہے. اوستہ محمد کے مکین اپنی نیند سے بیدار ہونے لگے ہیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ حقیقی ترقی اور تبدیلی صرف تعلیم، اتحاد اور اجتماعی جدوجہد سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ سول سوسائٹی کی تنظیمیں، مقامی کارکن اور متعلقہ شہری اقتدار میں رہنے والوں سے احتساب کا مطالبہ کرنے کے لیے ہاتھ جوڑ رہے ہیں۔
اپنی آواز بلند کرکے اور قصبے کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے، اوستہ محمد کے لوگ آہستہ آہستہ لیکن مستقل طور پر ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عوام پرامن احتجاج میں مصروف ہیں، بنیادی سہولیات کا مطالبہ کر رہے ہیں، اور اپنے منتخب نمائندوں پر اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ بیلٹ باکس کی طاقت کو تبدیلی کے ایک ہتھیار کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے، جس میں نسلوں سے حکمرانی کرنے والے جاگیردار خاندان کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کے لیے متبادل امیدوار سامنے آ رہے ہیں۔
جاگیردارانہ حکمرانی کے شکنجے میں پھنسا ضلع اوستہ محمد صوبے بھر میں لاتعداد کمیونٹیز کو درپیش جدوجہد کا زندہ ثبوت ہے۔ نام نہاد انتخابات کے پرفریب رقص نے مکینوں کو احساس محرومی اور غفلت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ تاہم، تبدیلی کی ہوائیں چلنے لگی ہیں، کیونکہ اوستہ محمد کے لوگ خاموشی سے اپنی قسمت کو ماننے سے انکاری ہیں۔ اپنی آواز کو دوبارہ بلند کرکے اور احتساب کا مطالبہ کرکے ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم ان کی فریادیں سنیں اور روشن مستقبل کے لیے ان کی لڑائی کی حمایت میں ہاتھ جوڑ کر جدوجہد کرے اور انکی آواز بنے۔