Latest News

ایرانی تیل کے کاروبار پر پابندی،سرحدی عوام کی معاشی قتل

تحریر:بلال شہزاد برہانزئی

کچھ دن قبل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے حب میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ ایرانی ڈیزل و پیٹرول کی سمگلنگ پر مکمل طور پابندی عائد کریں گے۔اس بیان کے تناظر میں اس موضوع پر لکھنے سےقبل پاک ایران تعلقات سرحد کی جغرافیائی اہمیت کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔پاکستان اور ایران کے درمیان بین الا قوامی سرحد 909 کلو میٹر طویل ہے جسے پاک ایران بریئربھی کہتے ہیں۔یہ سرحد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے مغربی اضلاع چاغی ،واشک، کیچ ،پنجگور اور گوادر کےمتصل علاقہ ہے۔ دوسری جانب ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان ہے پاکستانی و ایرانی بلوچستان میں بلوچ کثیر تعداد میں آبادی ہیں۔ایران اور پاکستان کےدرمیان باضابطہ کاروبار ،امیگریشن کے لیے ضلع چاغی میں پاک ایران سرحد سے آر سی ڈی شاہراہ اور ریلوے لائن گزرتی ہےتفتان کے مقام پر راہداری گیٹ،زیروپوائنٹ بھی ہیں۔سالانہ تجارتی سرگرمیوں کا حجم ایک ارب پچاس کروڈ ڈالر بتایا گیا ہے۔دونوں ممالک اس حجم کو بڑھانے کے لیے مزید سرحد پر امیگریشن آفسز اور مارکیٹیں بنانے کے خواہاں ہیں۔ایران تفتان سے لے کر مند تک سرحدپر دیوار تعمیر کررہا ہے جبکہ ایران پر عالمی طاقتوں کی طرف سے پابندی سے اب یہی بات سننے میں آرہی ہے کہ ایران  کے کچھ کاروباری حلقے اور اقتصادی ماہرین اب اس دیوار کو گرانے کیلیے ایرانی حکومت کو تجویز دے رہے ہیں۔

سرحد کے دونوں اطراف کے ہزاروں افراد چھوٹی چھوٹی اشیاء کی درآمد برآمد سے برسرروزگار ہیں۔اسکے علاوہ ماشکیل،مند،جیوانی بھی ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقے ہے جہاں کے لوگوں کی زریعہ معاش بھی سرحدی کاروبار سے منسلک ہے۔پاکستان کے قیام کے بعدایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ پینسٹھ اور اکہتر کے جنگوں میں پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔دونوں ممالک کے مشترکہ مذہبی،تہذہبی،ثقافتی اورتجارتی  تعلقات برسوں  جاری ہیں۔ پاک ایران اقتصادی جغرافیائی اہمیت رکھتی ہے۔اسی سرحد پر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے حدود میں بلکل سرحد کے ساتھ امریکی ادارےEIA  نے تیل کے بہت بڑے زخائر دریافت کی ہے جسکی مقدار نو سو ملین بیرل ہے جسکو نکالنے سے پاکستان کی معشیت میں واضح بہتری آسکتی ہے۔ پاکستان اور ایران کے مابین شروع دن سے اچھے تعلقات رہے ہیں مگر کچھ سالوں سے اس تعلقات میں کمی آئی ہے۔اورکبھی کھبار سرحد پر حالات کشیدہ بھی ہوجاتے ہیں۔اورایران کی طرف سے راکٹ فائر کیے جاتے ہیں

 پاک ایران گیس پائپ لائن  منصوبے پر معاہدے کے باوجود پاکستان نے امریکہ اور سعودی عرب کی دباؤ میں آکر ہاتھ واپس کھینچ لیا تھا۔جبکہ ایران نے معاہدے کے عین مطابق اپنے حدود میں  پائپ لائن بچھانے کا کام مکمل کرچکا ہے۔پاکستان کی وجہ سے  منصوبہ التواء کا شکار ہے۔اس کے علاوہ ایرانی پاسداران انقلاب  کے فورس پر ایک مذہبی تنظیم جنداللہ مختلف حملوں میں ملوث رہاہے ایرانی حکام کا ہمیشہ یہ دعواہ رہا ہے کہ جنداللہ  کے مضبوط ٹھکانےسرحد کے قریب پاکستانی حدود میں ہے۔اسی تنظیم کے سربراہ عبدالمالک ریکی کوچند سال قبل  ایران حکومت نے پھانسی دی تھی۔وسطی ایشیائی ممالک کی وجہ سے یہ سرحد دنیا کے ان چندسرحدوں میں شمار ہوتا ہے جہاں سے منشیات کی سمگلنگ روزانہ کی بنیاد پر ہوتی رہتی ہے۔

انتخابات دوہزار اٹھارہ کے بعد بلوچستان کے عوام  میں ایک امید کرن جاگ اٹھی تھی کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد بلوچستان کے لوگوں کو غربت سے نکال کر  روزگار کی فراہمی کو یقین بنایا جائے گا۔ہمسائے ممالک کے ساتھ کاروبار  شروع کرکے عام لوگوں کی حالت زندگی میں  بہتری آئیگی۔مگر سب کچھ اسکے برعکس نکلے اورانکے امیدوں پر پانی پھیر دیے جب صوبے کے نومنتخب وزیر اعلیٰ نے ایرانی ڈیزل کے کاروبار پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا۔اس علان کے بعد بلوچستان کےنصف حصے پر آباد غریب عوام میں کہرام مچ گیا۔بلوچستان چاغی،واشک ،کیچ ،پنجگور،آواران ،نوشکی قلات کے 80 فیصد لوگوں کے کاروبار کا دارومدار ایران کے سرحد سے منسلک ہیں۔صرف یہ نہیں ایران میں آباد لاکھوں بلوچوں کا زریعہ معاش پاک ایران بارڈر پر غیر رسمی تجارت ہے۔دونوں ممالک کے مابین ڈیزل و پیٹرول کا غیررسمی تجارت  کہیں دہائیوں سے چلتا آرہا ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف آباد سخت جان بلو چ اپنی جانوں سے کھیل کرسخت اور کھٹن راستوں سے گاڈی ،اونٹوں اور گدھوں پہ لادکر سرحد پار کرلیتے ہیں۔اسی محنت و مشقت سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔اور گھر کے چھولوں کو بھجنے نہیں دیتے ہیں۔اگر ایرانی تیل کی کاروبار کو بند کیا جائے تو یہاں بسنے والے مجبورٰ دیگر علاقوں کی طرف نقل مکانی کرینگے کیونکہ پہلے سے یہ معاشی بدحالی اور بھوک و افلاس کا شکار ہے۔تیل کے کاروبار کے علاوہ انکے پاس دوسرا کوئی روزگار نہیں ہیں۔

بلوچستان کے وزیراعلی کو چاہیے کہ اتنی بڑی آبای کو غربت اورپسماندگی کی طرف دھکیل کر انکو نان شبینہ کا محتاج نہ کیا جائے غریب لوگوں کو دو وقت کی روٹی کمانے کا موقع دے کر ان کا نوالہ ان سے نہ چھینا جائے۔غربت اور پسماندگی کے شکار ان علاقوں کے نوجوان ذیادہ تر نشے کے عادی ہورہے ہیں۔لوگوں کے زہنوں میں یہی ایک سوال اٹھتا ہے کہ اگر تیل کی کاروبار کو بند کردیا جاتا ہے۔تو اس کے متبادل  یہاں کےلوگوں کیا رزگارفراہم کیا جائے گا۔اس علاقے میں فیکٹریاں کھول دینگے۔یہاں کے معدنیات اور سی پیک سے مقامی لوگوں کو انکے شئیر ملینگے؟؟ بغیر کسی منصوبہ بندی کے اتنی بڑی کاروبار کو اچانک بند کرنا لوگوں کی معاشی قتل کے مترادف ہے۔ بلوچستان کے عوام نے اس فیصلے کی نفی کی ہے وزیر اعلیٰ کو اپنی اس فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔وزیر اعلیٰ کے اس بیان کے بعد عوامی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ یواین او کے ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کو دنیا کا غریب ترین خطہ قرار دیا گیا ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایرانی تیل کی  کاروبار کو قانونی شکل دے کر ایران کے ساتھ معاہدہ کیا جائے۔

بلال شہزاد برہانزئی ضلع چاغی کے مقامی صحافی ہے۔ایک سیاسی و سماجی ورکر ہے۔ روزنامہ 92 نیوز اور پبلک نیوز چینل کا نمائندہ ہے۔گزشتہ چند سالوں سے سماجی کاموں میں  سرگرم عمل ہے۔ 

Comments
Print Friendly, PDF & Email