رفیق چاکر
انیس سو ستانوے سے لے کر اب تک پنجگور کی سیاسی صورت حال اور سیاسی پارٹیوں کی کردار کو قریب سے دیکھ رہا ہوں. سیاسی ورکرز،نام نہاد لیڈرز اور سرمایہ دار طبقے کے ساتھ سیاسی موسم اور پیشگی کامیاب ہونے والے پارٹی کی حال کوجاننے والے ضمیر کا سودا کرنے والےنام نہاد جیالوں کو قریب سے دیکھا ہے اور اُن کی کردار کو بھی قریب سے اخذ کیا ہے.پارٹیاں بنتے جا رہے ہیں ورکرز ایک پارٹی سے دوسرے پارٹی میں ڈیرے ڈال رہے ہیں. پارٹی بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنے بیانات اور نظریہ کو بدلنے کے ساتھ ساتھ یہ برسراقتدار پارٹی میں جاکر گھر بنانے کے بڑے ماہر ہوتے ہیں.ہم گزشتہ کئی سالوں سے اس سرزمین پر ہونے والی نا انصافیوں اور احساس محرومیوں کے بارے میں شکوہ شکایت کرتے ہوئے نہیں تھکتے.اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرکے مرکز یا دوسرے اضلاع کو مورد الزام ٹہراتے ہیں.جس طرح میں نے پہلے لائن کے سطور میں عرض کیا تھاکہ 1997سے باقاعدہ ملک بھر کی طرح پنجگور کی سیاسی صورتحال کو دیکھ رہا ہوں اور اس سے پہلے کی صورتحال کو بڑوں سے سنا ہے یاکتابوں کے اوراک سے پڑھا ہے
ستر سال سے زائد ہو چکے ہیں کہ ہم اس ملک کے انتخابی عمل میں باقاعدگی سے شامل ہیں اور ہر دور حکومت میں اپنے پسندیدہ پارلیمانی لیڈرز کو ووٹ دے کر اسمبلیوں تک پہنچا چکے ہیں لیکن ابھی تک ہم پیاسے ہیں صاف پینے کا پانی ہمارے لئے ناپید ہے. بجلی روزگار اور دوسرے بنیادی سہولیات کی فراہمی نا ممکن بن چکے ہیں.ہمیں کس نے لوٹا اور کس نے ہمارے حقوق غضب کئے ہیں.ملک.بھر کی طرح ہمارے یہاں بھی ایک مضبوط اور چالاک مافیا موجود ہے جو ایک منظم طریقے سے ہمارے حقوق پر قبضہ کرکے ہمیں اپنے بنیادی حقوق سے محروم کر رہے ہیں. یہ مافیا انتہائی مضبوط اور بہترین حکمت عملی کے تحت کام کر رہی ہے.یہ بغیر اقتدار کے ایسے مچھلی کی طرح ہوتے ہیں جو پانی سے باہر ہوتے ہی تڑپنا شروع کر دیتے ہیں. جب سے اُن کو دیکھا ہے وہ حکمران جماعت اور برسر اقتدار جماعت کے پاس ہوتے ہیں. اس مافیا نے یہاں کے سیاست دانوں کو اس طرح بلیک میل کرکے اپنے نرغےمیں رکھا ہے کہ وہ اُن کے خلاف ایک لفظ تک کہنے کی جرات نہیں کرتے اور جب وہ کسی بھی پارٹی میں جاتے ہیں تو وہ پارٹی کے نظریاتی ورکرز کا جگہ نہایت آسانی سے لےلیتے ہیں. پانچ سال تک پارٹی کی قیادت کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں اورہاتھ میں منرل واٹر کی بوتلیں تھامے ہر مجلس اور ہر سیاسی میٹنگ میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں. نوکری سے لے کر ٹھیکے اور دیگر مراعات حاصل کرکے عام ورکر اور ووٹر کے حقوق غضب کرکے اُن کے احساسات کو اپنے پاوں تلے روندتے ہیں.اقتدار کے دوران اپنی بینک بیلنس کو کروڈوں تک پہنچا کر ہر محفل میں جھوٹی تعریفیں کرکے پارٹی کی وکالت کرتے ہیں اور اُس کے بدلے مراعات لیتے رہیں گے.نظریاتی ورکرز اور جان کی پرواہ کئے بغیر جیالوں سے بڑھ کر پارٹی میں اُن کو اہمیت دی جاتی ہے.اقتدار ختم ہوتے ہی اپنی وفاداریاں تبدیل کرکے ناراض ہونے کا ڈرامہ رچا کر ایک ایسی پارٹی میں شمولیت ختیار کر لیتے ہیں کہ اُس کے جیتنے کے مواقع صاف نظر آتے ہونگے.جس پارٹی پر شدیدتنقید کرکے اپنی پارٹی کی وکالت کرتے تھے اُس کی تعریفیں شروع کرکے ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں. جس پارٹی لیڈر پر جان نثار کرنے کے جھوٹے دعوے کرتے تھے اُس پر الزامات کی برمار کرکے
.اپنی نفرت کا مظاہرہ کرتے ہیں
یہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے اور یہی لوگ ایک پارٹی کو کئی بار آزما کر مراعات حاصل کرنے کے بعد خیرباد کہہ چکے ہیں اور یہی لوگ علاقے کی تعمیر و ترقی کی راہ پر رکاوٹ ڈالنے والے تھے اور اجتماعی مفادات سے بڑھ کر زاتی مفادات کا تحفظ کرتے دکھائی دے رہے تھے.یہی مافیا پارٹیاں تھوڈنے اور سیاسی لیڈرز کی ناکامی کے سبب بنے ہوئے تھے لیکن آج تک کسی بھی سیاستدان نے اُن کی سیاست کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے اور اُن سے جان چھڑانے کی کوشش نہیں کی ہے.سیاسی پارٹیوں کی تباہی کے زمہ دار اور سیاستدانوں کی سیاسی کیریئر کو تباہی تک پہنچانے والے یہی ضمیر کے سوداگر ہیں جو کپڑے کی طرح پارٹیاں بدلتے ہیں.پارٹی بدلتے وقت لیڈرز صاحبان کو یہ سنتے ہی پارٹی کے اصل ورکرز کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ سیاسی سوداگر اور ضمیر کے سوداگروں کو پارٹی میں دوبارہ کبھی بھی قبول نہیں کیا جائے گااور اُن کے ورکرز کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے نہیں دیا جائے گالیکن مخالف پارٹی سے نکل کر پارٹی لیڈر کے خلاف چار نا زیبا الفاظ کے استعمال کے بعد وہ ایک بہترین مقام حاصل کرکے اپنی جڑیں پارٹی میں گہرائی تک لے جانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور پارٹی کے حقیقی ورکرز پانچ سالوں تک دربدرہو کر احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں
یہ سلسلہ اب بھی زور شور سے جاری ہے اور پارٹی وفاداریاں بدل کر ضمیر کے سوداگر اپناکام جاری کئے ہوئے ہیں.اگرپنجگور سمیت مکران بھر کے سیاست دان اور پارٹیاں اسی طرح بلیک میل ہوتے رہے اور اپنے نظریاتی ورکرز اور غریب ووٹرز کے حقوق پر اس مافیاکو قبضہ جمانے سے نہیں روکتے تو اس معاشرے سے احساس محرومی اور نا ناصافیوں کے تسلسل کو روکنا نا ممکن ہوگا.اس مافیا سے چھٹکارہ حاصل کرکے ہی اس قوم کی بہتری اور روشن مستقبل کیلئے دو قدم آگے بڑھنے کے امکانات ہوسکتے ہیں.ان سے بہتر یہی ہے کہ علاقے کی ترقی و تعمیر کیلئے نظریاتی ورکرز اور ووٹرز کے شانہ بشانہ کام کرکے ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہے
ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا لازمی نہیں
Comments