سعید یوسف
پانی قدرت کا ایک ایسا عطیہ ہے جس کے بغیر انسانی زندگی کی بقا ممکن نہیں۔ اللہ تعالی نے کائنات کو بڑے متوازن انداز میں پیدا کیا ہے۔ نظام شمسی میں جتنے بھی سیارے ستارے ہیں ان میں سب سے منفرد اور اہمیت کا حامل زمین ہے جہاں زندگی کے بقا پانی اور ہوا کی مرہون منت ہے۔ قرآن مجید میں بار بار ماحولیاتی نعمتوں پر غور و تدبر کا حکم دیاگیا ہے، قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ رکھا ہے:( الانبیاء30) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا اور اللہ تعالی نے زمین پر چلنے والی ہر چیز کو پانی سے پیدا فرمایا: (سورۃ النور 45) ۔
چونکہ انسان کائنات ہستی کا بلند ترین مظہر ہے اس لیے اس کو زمین پر نیابت الہی کی ذمہ راری سونپی گئی اور اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا گیا، اور ہرچیز کو تسخیر کرنے کے جوش میں صنعتی انقلاب کو پروان چڑھانے اور اپنی زندگی کو سہل سے سہل تر بنانے کی جستجو نےاس وقت کرہ ارض کو ماحولیاتی عدم توازن کا شکار کر دیا ہے، حضرت انسان کی بے جا مداخلت اور نام نہاد ترقی نے اسکی اپنی بقا خطرے میں ڈالی ہے، جیسے جیسے انسان ترقی کے منازل طے کرتا جا رہا ہے فطرت کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے جس سے فطرتی ماحول ا یسی غیر فطرتی کثافتوں (طبعی ٬حیاتیاتی اور کیمیائی) اجزا سے آلودہ ہورہا ہے جس کے اثرات ناقابل تلافی ہیں۔ اس کے اثرات سے خوارک کی کمی کے نہ ختم ہونے والے سلسلے نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے جس سے لاکھوں لوگ بھوک، افلاس سے موت کی وادی میں جا رہے ہیں۔
قدیم تہذیبیں جو دریاوں کے پاس پروان چڑھتی رہی ہیں، ان کے رخ بدلنے یا خشک ہونے پر ویران ہو جاتی ہیں ۔ دنیا میں صرف تین فیصد سے کم پانی پینے کے قابل ہے باقی ستانوے فیصد سمندری نمکین پانی ہے، اسی تین فیصد کو ہم پینے ،اپنے روز مرہ کے امور کی انجام دہی، زرعی اور آبپاشی کے لئے استعمال میں لاتے ہیں ۔ قدرت کی طرف سے عطا کرتا آبی وسائل کی بہتاب کے باوجود اس کے ذخائر میں دن بدن کمی آتی جا رہی ہے کیونکہ پانی کی کثیر مقدار ہر سال بغیر استعمال ، یا بے جا استعمال کر کے ضائع کی جاتی ہے، ماہرین کی پیشنگوئی ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی پر ہوگی۔ پانی کی کمی کے اثرات نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے جس میں بنیادی طور پر سمندروں اور دریاؤں کے آس پاس آبادی ماحولیاتی/موسمی تغیراتی عمل سے نقل مکانی کر رہےہیں۔ جس کے اثرات سے پہلے سے موجود شہروں میں بحرانی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ ایک جائزے کے مطابق دنیا میں 1.1 ارب لوگوں کو پانی تک رسائی حاصل نہیں، جبکہ دو ارب کے قریب لوگوں کو کسی نہ کسی صورت پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے پانی کو بنیادی حق قرار دیا ہے۔
آبادی کا بڑھنا، لوگوں کا جنگلات کو بےدریغ کاٹنا اور اس زمیں کو اپنے تجارتی اور رہائشی مقاصد کیلئے استعمال میں لانا، صنعتی انقلاب کے نام پر ماحول کو نیست و نابود تباہ و برباد کرکے رکھ دینا اور صنعتوں اور رہائشی فضلہ سمندر اور دریاؤں میں بہا دینا، جس کی وجہ سے بہت سارے قدرتی چشمےخشک، جیھل اور دیگر آبی ذخائر آلودہ ہو چکے ہیں شہری آبادی کا مسلسل بڑھنا لوگوں کا نقل مکانی، زیر زمین پانی کا بے دریغ استعمال ماحولیاتی نظام میں بے جا مداخلت بھی عیاں ہیں۔ جس کی واضح مثال جنوبی افریقہ کا دارلحکومت کیپ ٹاؤن ہے جام پر پانی نایاب ہوچکی ہے اور اس حوالے سے لوگ پانی کے لیے سرگرداں ہیں ، بھارت کے شہر بنگلور میں بھی پانی کا حصول ایک خواب بن چکا ہے کیونکہ جہاں سے صاف پانی مہیا کیا جاتا ہےوہ انتہائ آلودہ ہوچکا ہے، چین کا دارالحکومت بیجنگ، برطانیہ کا دارالحکومت لندن جاپان کا دارالحکومت ٹوکیو روس کا دارالحکومت ماسکو و دیگر بہت سارے اہم شہروں میں بھی پانی کی بحرانی کیفیت درپیش ہے، مگر ان ممالک نے پانی کی مناسب قیمت اور درجہ بندی کی ہے، اور پانی کو استعمال کی ایک حد مقرر کی ہے حد کے بعد آبادی کو اس کی اچھی خاصی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ دور اندیش اور ترقی یافتہ قومیں اپنی تعمیر و ترقی کے لئے آئندہ پچاس سال یا ایک صدی کا پیشگی خاکا تیار کرتی ہیں تاکہ دنیاکی دوسری تیز رفتار اقوام کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے نکل سکیں۔ دوسری جانب اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک جو کہ پانی کے قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہیں مگر پھر بھی تقسیم سے متعلق مطمعن نظر نہیں آتے۔ یہی حال پاکستان کا بھی ہے جہان پر دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام موجود ہے، دریائے سندھ جیسا عظیم دریا اس سرزمین پر بہتا ہے جو شمالی علاقوں سے ہوتا ہواپورے ملک کو سیراب کر سکتی ہے، درحقیقت پانی کی بہت بڑی مقدار بغیر استعمال کیے بحر عرب میں غرق ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور پانی کے وسائل کم ہو رہے ہیں گویا ہم تیزی سے قلت آب کی طرف بڑھ رہے ہیں اگر آبی وسائل کا پائیدار بنیادوں پر مناسب انتظام نہ کیا گیا تو پاکستان میں بہت سارے علاقے خشک اور بنجر ہو جائیں گے جو کہ ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ایٹم بم سے کم نہیں۔
صوبہ بلوچستان میں آبی وسائل کی کمی اور اس سے منسلک پیچیدگیاں ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ بلوچستان کو پانی کے حوالے سے مربوط عصر حاضر سے ہم آہنگ تکنیکی لحاظ سے مفصل پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔
سابقہ ادوار کے غیر معروف پالیسی جس میں زرعی مقاصد کے لیے صوبےکے زمینداروں کو ٹیوب ویلوں کی تنصب اور اس میں بجلی کی سبسڈی، حالیہ عرصے میں لوگوں کو شمسی سولر پینل وٹیوب ویل کے لیے مراعات دینے کے اقدامات شامل ہیں جس میں زمیندار اور عام لوگوں نے پانی کا بےدریغ استعمال کیا۔ چند سال پہلے جو پانی چند فٹ پر واقع ہوتا تھا اب وہ ہزاروں فیٹ کی بورنگ میں بھی نہیں آتا، کاریزات کا ایک مربوط اور جامع نظام ہوتا تھا جس سے آبپاشی اور زرعی مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جاتا تھا۔
گلوبل وارمنگ اور بلوچستان کی خشک اور نیم خشک سطح مرتفع ہونےکی وجہ سے بھی موسمی تغیراتی عمل بلوچستان پر زیادہ اثر انداز ہورہے ہیں۔ جس میں خشک سالی کا اثر بہت زیادہ ہے اور یہ آثار کبھی کبھار کئی سالوں پر محیط ہوتا ہے۔ اور اگر بارشیں ہوتی ہیں تو اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ وہ صوبے میں سیلاب کی نوعیت پیدا کردیتی ہیں، ساحلی علاقوں میں سائیکلون کے طوفان بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ صوبے کو سب سے شدید خشک سالی کاسامنا
سال1997-2005 کے دوران دیکھنے میں آیا صوبے کے دورافتادہ علاقوں کے بہت سارے لوگوں نے نقل مکانی کو ترجیح دیتے ہوئے شہری علاقوں کارخ کیا، جبکہ اس کے معاشی اثرات انتہائی مہلک اور تباہ کن ہیں۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہنا جیل جو کہ خشک سالی کے باعث خشک ہو چکی ہے۔ جبکہ ماہرین کے مطابق کویٹہ میں اگلے چند سالوں کے دوران پینے کا پانی بھی ناپید ہو جائے گا ۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق زیر بلوچستان میں زیر زمین پانی کے ذخائر جو کہ 2.210 ملین ایکڑ فٹ ہے جس کو بے دردی سے استعمال میں لایا جا رہا ہے صوبے میں اس وقت تقریبا چار ہزار کے قریب ٹیوب ویل ہیں، لفظ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کی وجہ سے اس کی شرح منفی میں ہے جو کہ 2.65 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال میں لایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مقررہ قررہ معیار کے مطابق ایک بندے کو دن میں تقریبا 30 گیلن پانی مہیا ہونا چاہیے، جبکہ بلوچستان میں یہ شرح 8 گیلن فی بندہ ہے اور اس میں صرف آبادی کے ساٹھ فیصد کو پانی حاصل ہے جبکہ 40 فیصد حصہ اس سے بھی کم شرح کو استعمال میں لا رہے ہیں۔ مناسب پانی نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کا 30 ملین ایکڑ فٹ زمین جو قابل کاشت ہے پانی بھی نہ ہونے کی وجہ سے صرف 3.4 ملین ایکڑ فٹ قابل کاشت بنایا جا رہا ہے دریائے سندھ سے منسلک بلوچستان کے تین اضلاع صرف دریائے سندھ کے پانی کی قلیل مقدار کو استعمال میں لا رہے ہیں۔
آبادی کے بڑھنے جنگلات کی بے دریغ کٹاؤ اور زیر زمین پانی کا بے جا اور غیر ذمہ دارانہ پمپینگ نے بلوچستان میں بحرانی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ زرعی اباشی کے لیے غیر روایتی اور پرانے طریقوں کا استعمال ،غیر ذمہ دارانہ طرز زندگی جس میں پانی کا وافر استعمال بھی اس کی کڑیاں ہیں۔
پانی کو محفوظ بنانے کے لیے مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر کو اختیار کیا جا سکتا ہے ۔
1۔ زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں جو ماحول دوست اور کم پانی سے جلد پروان چڑھنے والے تناور درخت بن جائے کیوں کہ اس سے موسمی تغیرات اور پانی کی کمی محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ جن علاقوں میں جنگلات نباتات کی فراوانی ہے وہاں نہ صرف بارشیں زیادہ ہوتی ہیں،سیلاب کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے درخت درخت کے جڑوں سے جذب ہونے والا زیر زمین کے آبی ذخائر میں اضافے کا بھی باعث بنتی ہے۔
۔ اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں کا تحفظ کر کے اعتدال کی روش نہ صرف خود اپنائے بلکہ دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔ کیونکہ پانی سے میرا آج اور میری قوم کامستقبل وابستہ ہے۔
۔ پانی کا صحیح استعمال ہماری اخلاقی سماجی معاشرتی اور مذہبی ذمہ داری کا اول جز ہے۔ جبکہ پانی کے بچاؤ کیلئے آپ کا ہر مثبت قدم محفوظ مستقبل کی ضمانت تصور کی جائے گی۔
۔ بلوچستان کیلئے مربوط اور جامع واٹر پالیسی کا نفاذ ، جس میں پانی کی قیمت کا اطلاق، اس کو محفوظ بنانے کے بارے میں لائے عمل، قلیل درمیانے اور طویل مدتی پالیسی پر عمل درآمد کی اسٹریٹجی۔
۔ ، سمندری کھارے پانی کو قابل استعمال بنانے ،استعمال شدہ پانی کو زیر استعمال اور ری سائیکلنگ کا طریقہ کار کے حوالے سے پالیسی سازی کرنا۔
۔ گھر دکان گاڑی دھوتے وقت پانی کے پائپ کا ہرگز استعمال نہ کرنا بلکہ بالٹی میں پانی ڈال کر صفائی کے امور کی انجام دہی کرنا۔
۔ پانی کے زیاں کو روکنے کے لیے پائپوں اور نلکوں کی فوری مرمت کو اپنی ذمہ داری سمجھیں۔
۔ نہاتے وقت شاور کا استعمال نہ کریں بلکہ بالٹی سے مقررہ مقدار کا پانی استعمال کریں۔
۔وضوکرتے، صابن سے ہاتھ دھوتے اور دانتوں کو برش کرتے وقت نلکے کو مت چھوڑیں اور حسب ضرورت استعمال کریں۔
Comments