Latest News

ھم ایک نئی امنگ اور جذبے سے حالیہ انتخابات میں بہتر پوزیشن رکھتے ھیں: خالد ولید سیفی

یوسف عجب بلوچ
خالد ولید سیفی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے پرائمری اسکول بہمن تربت سے حاصل کی بعدازاں گورنمنٹ ھائی سکول شاھی تمپ سے میٹرک کیا جس کے بعد درسِ نظامی کیلئے کراچی چلا گیا جہاں جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی درسِ نظامی مکمل کی.سیاست آغاز 1986 سے بی ایس او کے پلیٹ فارم سے کیا 1992 کو جمعیت طلباء اسلام جوائن کی2000 میں جمعیت طلباء اسلام بلوچستان کا ڈپٹی کنوینر رھا تعلیم سے فراغت(2000 کے اوخر سے)کے بعد جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کررہے ہیں۔ دو ہزار تیرہ میں جے یوآئی کے ٹکٹ پر تربت سٹی کی سیٹ پر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور آنے والے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے پی بی 46 کیچ 2 سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

بلوچستان پوائنٹ کے قارئین کے لیے ہم نے خالد ولید سیفی سے اسکے حلقے سے متعلق چند اہم سوالات پر اسکی رائے جاننے کی کوشش کی ہے جوکہ پیش خدمت ہے۔

بلوچستان پوائنٹ: ڈسٹرکٹ کیچ میں ہمیشہ قوم پرستوں نے کامیابی حاصل کی ہے اسکی کامیابی کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟
خالد ولید سیفی: مکران باالخصوص ڈسٹرکٹ کیچ ابتدا سے قوم پرست سیاست کا گڑھ رھا ھے 70 اور 80 کی دھائی میں چلنے والی قوم پرست تحریک اور سوشلزم نظریات کا اس خطے میں گہرا اثر رھا ھے آزادی کے نام پر کی جانے والی جدوجہد کے سرخیلوں نے 1988 کو جب انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو مکران میں انہیں بھرپور کامیابی ملی اور وہ کیچ میں کلین سویپ کرگئے کیچ کی تین صوبائی اور کیچ کم پنجگور کی نیشنل اسمبلی کی سیٹ ان کے حصے میں آئی یوں خون کی تحریک ووٹ کی تدبیر میں بدل گئی 1997 تک کیچ میں یہ سحر قائم رھا 1997 کے عام انتخابات سے قبل بی این پی کی تشکیل نے کیچ میں میدان مار لیا تاھم یہ اتحاد بھی چونکہ نیشنلزم کے فلسفے پر قائم ھوا اس لئیے آپ کہہ سکتے ھیں کہ بی این پی کی کامیابی بھی نیشنلزم فلسفے کی ھی کامیابی تھی۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ قوم پرستوں کی موجودگی میں آپ کے لیے کامیابی کی کوئی امید ہے؟
دو ہزار دو کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے کچھ ووٹ بنک بنانے کی کوشش کی تاھم بعد میں جے یو آئی کیچ کی 15 سالہ داخلی کشمکش سے کیچ میں مذھبی ووٹ بنک نہ ھونے کے برابر رھا گزشتہ ایک سال سے ھم نے جے یو آئی کو کیچ میں ایک مستحکم پوزیشن پر کھڑا کردیا ھے منتشر مایوس اور گوشہ نشین نظریاتی ورکر ایک بار پھر متحرک ھوچکا ھے اور ھم ایک نئی امنگ نئے جذبے اور شوق سے حالیہ انتخابات میں بہتر پوزیشن رکھتے ھیں جسکی ھم ایک سال سے تیاری کررھے ھیں جبکہ اب پارلیمانی سیاست میں نیشنلزم کے پلوں کے نیچے بھی بہت سارا پانی گزر چکا ھے۔

کیچ میں نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی کی جیت سے لوگوں کی زندگی یا علاقے میں آپ نے کیا خاص تبدیلی محسوس کی ہے؟
بی این پی عوامی اور نیشنل پارٹی کیچ کی سیاست میں اب بھی ایک حقیقت ھیں لیکن چار بار نیشنل پارٹی اور تین بار بی این پی عوامی کی جیت کے باوجود عام لوگوں کے طرزِ زندگی میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ھوئی 1997 سے لیکر 2013 تک انتخابات جیتنے والی بی این پی عوامی نے صفر ترقیاتی کام نہیں کیا البتہ اس کے پاس چند سو ملازمتوں کا دعوی ضرور ھے جنہیں وہ انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کررھی ھے جبکہ نیشنل پارٹی کے سابقہ ادوار ایک طرف رکھیں حالیہ دور میں تربت شہر کی حد تک ڈیولپمنٹ کا کچھ کا ھوا ھے لیکن غربت کے خاتمے بنیادی تعلیم کی بہتری علاج معالجے کی سہولیات پینے کے پانی کے حصول کے مسائل جوں کے توں ھیں شہر میں اچھی سڑکیں دیدہ زیب چوک تعمیر ھوئے ھیں مگر عام آدمی کے معیار زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں ھوئی ھے جس سے عوام کو سوچنے پر مجبور کردیا ھے کہ وہ سوچیں ۔

اس کی وجوہات کیا ہوسکتے ہیں کہ مکران بیلٹ میں ایم ایم اے یا کسی مذہبی جماعت کے حصے میں ووٹ ہمیشہ کم ہی آئے ہیں ؟

مکران میں مذھبی جماعتوں کے کمزور ووٹ بنک کی وجہ مذھبی راھنماؤں کا روایتی بیانیہ رھا ھے جو صرف خوفِ آخرت کی منظر کشی کرتا رھا ھے اس بیانئیے نے خود کو لوگوں کے سماجی مسائل سے الگ تھلگ رکھ ان سے ووٹ مانگا ھے ووٹ کا تعلق لوگوں کی مذھبی سے زیادہ سماجی و معاشرتی زندگی کے مسائل سے ھے اخروی زندگی کے مسائل بیان کرنے سے ووٹ بنک کبھی بھی مطلوبہ ھدف تک نہیں پہنچ سکتا ھے دوسری وجہ یہ ھے کہ مکران میں جے یو آئی یا مذھبی فکر کو افرادی قوت کے حوالے سے اپنی انتخابی صف بندی میں ھمیشہ مشکل پیش آئی ھے لیکن آج کے حالات ماضی سے مختلف ھے آج پنجگور ڈسٹرکٹ میں جمعیت علماء اسلام ایک تسلیم شدہ پارلیمانی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ھے کیچ میں صورتحال پہلے سے بہت زیادہ بہتر ھے سیاست دائمی عمل ھے مکران میں نامور علماء گزرے ھیں لیکن سیاسی رموز سے آشنا نہ ھونے یا عدم دلچسپی کی بناء پر وہ سیاسی قوت بنانے میں کامیاب نہ ھوسکے مگر کل کے مکران اور آج کے مکران میں واضح فرق ھے اگر مذھبی لیڈرشپ اپنا تسلسل قائم رکھنے میں کامیاب ھوا تو اس خطے میں کی پارلیمانی سیاست میں مذھبی طرز سیاست اپنا لوھا منوانے میں کامیابی ھوگی 2018 ایک بہتر تجربہ اور مضبوط بنیاد بن سکتی ھے اب افرادی قوت بھی ھے اور سماجی مسائل سے ایک جڑت بھی ھے آج کا مولوی نماز بھی پڑھاتا ھے اور تیمارداری کیلئے اسپتال بھی جاتا ھے۔

تو پھر کیچ میں اپنی جماعت کے ووٹ بنک میں اضافے کے لیے آپ کا لائحہ عمل کیا ہے؟

  کیچ میں مذھبی جماعت یا جے یو آئی کے ووٹ بنک نہ ھونے کا سبب جماعت کا انتخابی عدمِ تسلسل رھا ھے یہ پہلا الیکشن ھے کہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے جے یو آئی سماجی مسائل کے ایک بہتر حل کا منشور لیکر مقابلے میں ھے اگر ھم کیچ کے گوشہ نشین ووٹر جو دونوں پارٹیوں کی کارکردگی سے مایوس ہوکر گھر بیٹھ چکا ھے کو پولنگ اسٹیشن لانے میں کامیاب ھوگئے تو ھم غیر متوقع نتائج دے سکتے ھیں نوجوان مایوس سیاسی ورکرز اور غریب طبقہ ھمارے فوکس ھیں ھم اپنے پروگرام کو سوشل میڈیا پر موثر انداز میں پیش کررھے ھیں جبکہ عوامی رابطہ مہم کے ذریعے ووٹر کے شعور سے اپیل کررھے ھیں کہ وہ طرزِ کہن سے نکل کر عہدِ نو کی طرف آئے ھم محسوس کررھے ھیں کہ ھمارا بیانیہ لوگوں میں ڈسکس کیا جارھا ھے کیچ کا ذھن آزاد ھے یہاں کا ووٹر کسی بھی وقت اپنا ذھن بدل سکتا ھے ھماری کوشش ھے کہ ھم ایک ماحول بنانے میں کامیاب ھوجائیں جس کے بعد تینوں پارٹیوں کے درمیان دلچسپ مقابلہ متوقع ھوگا

کیا مکران بیلٹ سے خواتین کو سیاست اور خاص طور پر الیکشن میں حصہ لینا چاہیے؟

خواتین کو زندگی کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھانے کیلئے ھمارا وژن واضح ھے کہ وہ بھی بطور انسان اپنی صلاحتیوں کے درست استعمال سے معاشرے کیلئے تعمیری کردار ادا کرسکیں کیچ میں پی بی 47 میں متحدہ مجلسِ عمل کے ٹکٹ سے خاتون امیدوار میدان میں ھیں۔

بلوچستان کی سیاست میں مکران کا مرکزی کردار رھا ھے مکران میں سرداری نظام نہ ھونے کی وجہ سے لوگ ذھنی طور پر آزاد رھے ھیں اور انہیں اپنے سیاسی فیصلوں میں کبھی بھی کوئی دباؤ پیشِ نظر  نہیں رھا ھے سیاست انسانی عمل ھے اور خواتین بھی بطورِ انسان یہ حق رکھتی ھیں کہ وہ سیاست اور انتخابات میں حصہ لیکر اپنا لوھا منوائیں

Comments
Print Friendly, PDF & Email