Latest News

مطالعہ کی افادیت اور ضروری عملی اقدامات

تحریر: نوید بلوچ
دنیا بھر میں رونما ہونے والے تبدیلوں کا باریک بینی سے مطالعہ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ قوموں نے اپنی بنیادی معاشرتی معاشی اور فکری ڈھانچوں میں تبدیلیاں لاکر ہی انقلاب جیسے کھٹن راہ میں کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ قوموں کی ترقی کا راز قومی امور پر یکسوئی،وحدت،اتحاد و تنظیم اور دوسرے خطوں کے علوم سے خود کو اپنے قوموں کو بہرہ ور کرنا ہے۔ ایسا تب ہی ممکن ہے جب دوسرے علوم کا نہ صرف باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے بلکہ انکے اطلاق اور انہیں عملی جامہ پہنانے کیلیے اپنے زمینی حقائق، عوامل اور حالات و واقعات کا صحیح ادراک کیا جائے۔ حالات و واقعات کا صحیح ادراک، اور وقوع پذیر حالات کے مطابق اپنے زمینی حقائق سے ہم آہنگ نظریات و علوم کا حصول اور انکے نفاذ کیلیے درست طریقے سے عملی اقدامات ہی قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہیں۔

تاریخ عالم اس بات کا شاہد ہے کہ جن قوموں نے اپنے معاشرتی ڈھانچے کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں ضروری ترامیم کیے وہ قومیں آج دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں گنے جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ مزید ترقی کی جانب گامزن ہیں، وہی قومیں آج دنیا پر راج کررہی ہیں جنہوں نے اپنے جغرافیے اور حالات و واقعات کےمطابق اپنے آپکو دنیا کے ساتھ لاکھڑا کیا انہوں نے اپنی قوم کے ذبوں حالی کا باریکی سے مطالعہ کیا اور اس میں پائے جانے والے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور جغرافیائی مسائل کے تدارک کیلیے اقدامات کیے۔

کسی بھی عمل کے ابتداء سے پہلے اس کا وسیع مطالعہ ضروری ہے۔ آپ تب تک کوئی عمل بہترین طریقے سے سرانجام نہیں دے سکتے جب تک کہ اسکا خوب مطالعہ نہیں کیا جائے اور مطالعے کی بنیاد پر ہی اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔
ہماری ذبوں حالی، پستی اور تباہ حالی میں کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ وہ کیا وجوہات ہیں جنکی وجہ سے ہم بار بار مواقع آنے کے باوجود بھی کامیاب نہیں ہوسکے ہیں؟ اگردوسرے اقوام کے ساتھ اپنا موازنہ کرکے دیکھا جائے یا ان کے مسائل پر نظر ڈالی جائے تو ان کے اور ہمارے مسائل میں کافی فرق پایا جاتا ہے تاہم ہمارے ہاں تبدیلیوں کے مکمل مطالعے اور زمینی صورتحال سے ناواقفیت ہماری ناکامیوں کی بڑی وجہ ہے۔ اس میں ان علوم اور نظریات کو جذباتی طور اپنانا بھی شامل ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مطالعہ اسکے نتیجے میں حاصل کی گئی علم و نظریات کو عملی شکل میں منتقل کرنے اور چیزوں کی صحیح جانچ پرکھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لاطینی امریکہ کے ممالک میں تبدیلی کیلیے جو ماڈل اگر کامیاب ہوسکتی ہے تو ضروری نہیں کہ وہی ماڈل ایشیائی ممالک میں بھی کامیاب ہوسکے۔

مطالعہ کی طاقت عام و خاص میں فرق کی صلاحیت بخشتی ہے، مطالعہ نہیں تو روانی نہیں، روانی نہیں تو خیالات محض سطحی ہوکر رہ جاتی ہیں، لہذا یہ حقیقت ہے کہ جہالت اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی ناواقفیت، بے خبری قوموں کو پسماندہ بناتے ہیں اور انہیں گم نامی کی جانب دھکیل دیتی ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایسے قوموں کا نعرہ کیا تھا، اور مسئلہ کیا تھا؟ جنکی آج ہم مثالیں دیتے ہیں،

ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کیا حاصل شدہ علم کی تحفظ ہی کافی ہے، یا اس میں برابر اضافہ لازمی ہے؟ اگر دوسرے سوال کا جواب اثبات میں ہے تو یہ بات صحیح ھیکہ دوسرے اقوام اور معاشروں سے علم حاصل کیا جائے، اور اگر حاصل شدہ علم کو صرف تقلید کی حد تک رکھا جائے گا تو اس سے معاشرے کی تخیلقی صلاحیتیں نہیں ابھریں گی، اس لیئے لازمی ھیکہ حالت اور تقاضوں کے تحت علم کو تخلیق بھی کیا جائے تاکہ دوسروں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
اس قوم کیلئے نعرے سے زیادہ علم اہمیت حامل رکھتی ہے، بد قسمتی سے ہمارا انحصار ہمیشہ سے نعروں کی بنیاد پر لوگوں کو اکھٹا کرنے پر رہا ہے، نعرہ لگانے اور اسکو استعمال کرنے کا مطلب عوام کو جذبات کی بنیاد پر اکھٹا کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ عمل دیر پا نہیں ہوسکتا۔

یاد رکھیں! صرف فکری شمولیت کے زریعے ہی کسی معاشرے کا موجودہ ڈھانچہ تبدیل کیا جاسکتا ہے، جس کی طرف بحیثیت قوم ہمارا رجحان کم ہی رہا ہے، تشکیل، تقسیم، تقسیم اور پھر سے تشکیل جیسے مراحل سے گزرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے حاصل کردہ علم کی بنیاد پر نعرے بنائے، اور اسی کی بنیاد پر لوگوں کی تنظیم کی، سالوں بعد پھر باریکی سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں، یعنی ہم بجائے تخلیق کے تقلید پر زیادہ انحصار کرتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی اوریجنل ذہنی تحریک پیدا نہیں ہونے پایا ہے۔

سوشلزم، مارکسزم، لینن ازم، ٹراسکی ازم، ایسے کتنے اور ازم ہوں گے جو نوجوان طبقے کے زیر مطالعہ ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ یہاں علم پیور حالت میں نہیں پہنچتی اور اگر اسکا کچھ حصہ مل بھی جاتا ہے تو ذہنی استعداد کار اور اسکے سمجھ بوجھ کتنے لوگوں میں ہے؟ کتنے ایسے لوگ ہیں جو مذکورہ نظریات پر مکمل عبور رکھتے ہیں؟ ہمارا مطالعے سے فقط اتنا تعلق ہے کہ ہم محض اقتباسات اور حوالہ جات تک ہی محدود ہیں۔ ان نظریات اور علوم کو عملی جامہ پہنانے میں جو دشواریاں آڑے آتی ہیں انکا آج تک کسی کو نہ صحیح ادراک ہوا ہے اور نہ ہی انکو انکے اصل حالت میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں آپکو حوالہ جات، اقتباسات اور بڑے بڑے محققین کے ناموں کی فہرست ہرزبان پر ملتی ہے تاہم اگر تھوڑا سا کریدا جائے تو سب ہوا ہوجاتا ہے۔ ایسے میں صرف کنفیوژن پھیلتی ہے۔ ہمیں مطالعے کو اس کے اصل ضروریات کے ساتھ اپنانا ہوگا۔ مکالمے کو فروغ دینا ہوگا۔ نظریات کے پرچار اور ان پر کھل کر بحث اور مکالمے کی ضرورت ہے۔ ایسا تب ہی ممکن ہے جب ایک کتاب کا صحیح حق ادا کیا جائے اور کسی کتاب کا حق تب تک ادا نہیں ہوتا جب تک کہ اس میں لکھے گئے مواد پر بحث و تکرار اور تبصرہ و تنقید نہیں کیا جاتا۔

Comments
Print Friendly, PDF & Email