راجی دیوان
جیسے جیسے پدرسری نظام کی پرورش ہوئی ویسے ویسے خاندان،ریاست اور ذاتی ملکیت کے تصور نے جنم لیا، جس میں مرد نے زر، زمین کے ساتھ ساتھ زن کو بھی ذاتی ملکیت کے طور پر اپنایا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کو اپنی جکڑ میں لے لیاجس کے باعث انسان سماجی و معاشی ذلتوں کا شکار ہوتا چلا گیا اور اس کی لپیٹ میں سب سے زیادہ خواتین آئیں اور چونکہ خواتین ہی خاندان میں بچوں کی پرورش کرنے کے ذمہ دار اور چار دیواری تک محدود تھیں اس لیے وہ آج تک اسی سماجی و معاشی قدغن کا شکار ہیں۔
سماجی و معاشی نظام کی ذلتوں نے خواتین پر ظلم و جبر کے سلسلے کو نہ صرف بڑھایا بلکہ اسے اور مضبوط کر دیا جس کو ہم نہ صرف اپنے ارد گرد موجود عورتوں بلکہ دنیا بھر کی عورتوں کے ساتھ کسی نہ کسی صورت ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہوتے ہیں, اس کی شکلیں مختلف ہیں لیکن پشت پر کار فرماتصور وہی ہے کہ پدرشاہی نظام ہی عورت کی سرپرستی کا ضامن ہے۔ ایک طرف دنیا گلوبلائزیشن کی طرف رواں دواں ہے اور دوسری طرف آج بھی عورت ہونے کے نام پر وہ جنسی تشدد، تیزاب گردی، تعلیم سے محرومی، کم عمری کی شادی، غیرت کے نام پر قتل، غذائی قلت اور یہاں تک کہ اس کی خرید و فروخت جیسا مکروہ رواج بھی آج تک قائم ودائم ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آج پاکستان بھر سے عورتیں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں متحرک ہیں اور مستقل اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ آج عورتوں کی بہت بڑی تعداد سیاست، فنون لطیفہ، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ ہے لیکن تجزیہ کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ اُن میں بڑی تعداد elite اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھتی ہے جن کے مسائل اور نصب العین نچلے طبقے یا محنت کش طبقہ سے بالکل جدا ہیں۔نچلے طبقے کی کوئی عورت اگر سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر بلند ہو بھی جائے تو وہ خود کو بالاتر طبقے میں ضم کر کے، اُن کا حصہ ظاہر کر کے، اپنے لوگوں کا غم بھول کر منحرف ہو جاتی ہے جو کہ بجائے خود مساوات کے فلسفے کا بگاڑ ہے۔ یعنی marginalized communities کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے. اس کسمپرسی کے نتیجے میں نچلا طبقہ سماجی یا تہذیبی دھارے میں شامل نہیں ہوپاتا, نتیجتا غربت کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے.
آئینِ پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی سطح پر عورتوں کے حوالے سے بہت سے قوانین پاس کئے گئے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اُن قوانین پر عمل درآمد کس حد تک اور کن بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ (اس پر پھر کبھی بات کریں گے)۔ لیکن ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ صوبائی حکومتوں کی خودمختاری کے باوجود صوبائی سطح پر مختلف جگہوں پر خانہ جنگی کی صورتحال رہی اور بلوچستان وگلگت بلتستان جیسے صوبے اب تک اس خمیازے کو بھگت رہے ہیں۔ اور یقیناً اس میں بھی سب سے زیادہ عورتیں متاثر ہوئی ہیں۔
عورت آزادی مارچ ، جو ایک توانا تحریک ہے۔ اگر ہم پچھلی کئی دہائیوں پر نظر دوڑائیں تو لوگ حتی الامکان زبان بندی پر مجبور کیے گئے بولنے والے افراد کے ساتھ کیا کیا جاتا رہا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے. عورت مارچ ہمارے معاشرے کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے جس نے پاکستان بھر کی عورتوں کو یکجا ہو کر اپنے حقوق کے لیے سے آواز اٹھانے کی راہ دکھائی ۔ گزشتہ دو ہی سالوں کے دوران اپنے پیش کئے گئے ایجنڈے اور مینی فیسٹو میں مختلف خامیوں کے باوجود، اس تحریک نے اپنا آپ بین الاقوامی سطح پر منوایا ہے۔
لیکن یہاں پھر بات بالاتر اور درمیانے طبقے کی Dominancy کی آتی ہے جو marginalized communities کو سامنے آکر خود سے بات کرنے کا موقع فراہم نہیں کرتے –
آیا عورت مارچ 2020 ء کے مینی فیسٹو میں ایک عام عورت، پسے ہوئے طبقے کی عورت کی بات کی گئی ہے؟ کیا اُن قوموں کی بات کی جارہی ہے جن کے مسائل، مصائب اور نصب العین عورت مارچ کے اپنے نمائندوں یا اُس میں بات کرنے والوں اور یہاں تک کہ اُس میں پیش ہونے والے play cards سے ہٹ کر یا اُن کے متضاد ہیں؟
بطورِ بلوچ خواتین ہم عورت آزادی مارچ کو ایک خوش آئند عمل قرار دیتے ہیں اور اس تحریک کا حصہ بن کر اپنی قوم کی عورتوں کی شراکت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی شرکت کو بلوچ قوم میں عورتوں کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اور اُسی دائرہ کار میں رہتے ہوئے یقینی بنائیں گے جو اِس وقت ہماری ہر طبقے کی عورت کی ضرورت ہے۔
اس بات سے قطعاً کوئی اختلاف نہیں کہ دنیا بھر میں عورتوں کے مسائل ایک جیسے ہیں لیکن اُن کی شکلیں ہر جغرافیہ میں مختلف ہو جاتی ہیں لہذا اس بات کی وضاحت مختصراً یہ ہےکہ بلوچ عورت خواہ اب تک تعلیم سے محرومی جیسے بنیادی مسائل کا شکار ہی سہی مگر نا امید نہیں اور ہم سب بلوچ خواتین عورت مارچ میں اپنی بھرپور شرکت کا اعلان کرتے ہیں۔
Comments