تحریر: ظفر عیسئ آزاد
آج کی اس ترقی یافتہ دنیا کے ممالک کی ترقی کا راز تعلیم کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرنا ہے، ان ممالک نے ان اس راز کو پا لیا تھا کہ اگر ستاروں کے اس پار جھانکنا ہے،سیاروں کو پرکھنا ہو،چاند کا دل چھیر کے رازیں نکالنی ہوں،خلاء کا تسخیر ہونا ہو یا سات سمندر کی تہی تک جھانکنا ہو،زمین میں پڑی ہوئ دولت کا انبار اکھٹا کرنا ہو ہو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرکے معدنیات نکالنی ہو۔ اس راز کو آج کی ترقی یافتہ یورپ و ایشیا سمیت بہت سے ممالک نے پالیا تھا کہ کیسے ہم اوج ثروت پہ پہنچ سکتے ہیں سب سے پہلے انہوں نے اپنے اسکول و کالج و یونیورسٹی سے لیکر ہر اس عمل کی پزیرائ کی جس سے وہ اس دنیا کو اپنی مٹھی میں بند رکھ سکیں۔
آج کی اس ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام کا سرسری معائنہ کرکے آپ یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اہنے نوجوانوں کو کیسے کارآمد انسان بناکر اس دنیا کو زیر کرنے کی جتن کی ہے ۔اس جتن میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ہر وہ ممالک جو ترقی یافتہ کہلاتا ہے ان کے تعلیمی نظام اتنا آسان و سادہ فہم ہے کہ نرسری سے لیکر اعلئ تعلیم کے حصول تک نوجوانوں کو چنداں مشکلات پیش نہیں آتے۔
قابلیت کا راز اور کچھ نہیں، اس کیلئے راکٹ سائنس کی چندان ضرورت نہیں،سب سے پہلی کوشش یہی تھی کہ کیسے اپنے ممالک میں اپنے نوجوانوں کو تعلیم کی جانب راغب کرسکیں،اس بارے میں انہوں نے بہت ساری پرکشش سہولیات کے علاوہ کئ ممالک میں تو تعلیم مفت ہوچکی ہے،دنیا کی اگر آج ٹاپ تعلیمی اداروں پر نظر ڈالیں تو ان ممالک کی کالجز یونیورسٹیاں اپنا ایک ممتاز مقام بنا چکی ہیں۔ دوسری جانب وطن عزیز کے تعلیمی اداروں پہ نظر دوڑائیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہیں کہ ہم شاید 15 ویں یا 16 صدی میں جی رہے ہیں،یہاں نرسری سے میٹرک تک میٹرک سے یونیورسٹیز کی سطح تک آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے،
نوجوان طالب علموں پر شروع سے اتنی ذہنی تنائو میں الجھایا جاتا ہے کہ طلباء ان دبائو کے ملبے تلے منوں مٹھی میں دھنستے چلے جاتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے دماغ کھلنے کے بجائے مرجھانے شروع ہوجاتے ہیں،
نرسری سے لیکر میٹرک کے طلباء طالبات کی سلیبس پر نظر دوڑائیں،طلباء کے نوٹ بکس اور سلیبس وغیرہ چیک کرلیں،عقل کام کرنا چھوڑ جاتا ہے،ان ننھے کلیوں پر اتنا بوجھ ڈالا جاتا ہے کہ یہ بچے میٹرک تک پہنچتے بہت سی چیزیں گنوا دیتے ہیں،بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے۔
بلوچستان زندگی کے ہر شعبے میں پسماندہ ہونے کے ساتھ یہاں تعلیم کا نظام بھی بہت بری طرح متاثر ہے،یہاں کے گائوں،دیہات کی صورتحال تو قابل بیان نہیں لیکن کوئٹہ گوادر کیچ پنجگور خضدار جیسے بڑے شہروں میں تعلیم کی زبون حالی کا رونا روئیں یا بلوچستان کے طلباء طالبات کی غریبانہ زندگیوں پر نظر دوڑا کر ان کی قسمت کو کوسیں،
ہر ایک میدان قابل رحم و قابل افسوس ہے،اس جدید دور میں انٹرنیٹ کے بغیر طلباء کو بہت ساری مشکلات پیش آرہی ہیں،
کوئٹہ جیسے بلوچستان کے سب سے بڑے شہر میں انٹر نیٹ کنکٹ و ڈس کنکٹ کی شکایات کے علاوہ بلوچستان کا اکثریتی علاقے انٹرنیٹ سے محروم ہیں،ابھی حال میں وبائ مرض “کرونا”نے پاکستان میں اپنے پنجے گاڑنا شروع نہیں کئے تھے کہ حکومت نے ملک کے تمام تعلیمی ادارے بند کردئیے،تقریبا 4 مہینوں کی بندش کے بعد جب ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے آن لائن کلاسز کے اجرا کا اعلان کردیا تو بلوچستان کے طلباء میں سراسیمگی و بے چینی پھیلنی شروع ہوگئ،بلوچستان کے طلباء کو اپنی مستقبل تاریک نظر آنا شروع ہوگئ کہ انٹرنیٹ کے بغیر آن لائن کلاسز کو کیسے اٹینڈ کیا جاسکتا ہے،تقریبا پچھلے ایک مہینے سے بلوچستان کے طلباء سراپا احتجاج ہِیں،ریلیاں، جلسے جلوس کے علاوہ کئ علاقوں میں ایچ ای سی کے فیصلے خلاف علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگے ہوئے ہیں،
ہمارے یہ نونہالوں، مستقبل کے ان چراغوں کو روشنی دینے سے ہہلے ہی مرجھانے کا بندوبست کیا جاچکا ہے،،
آیا ایچ ای سی میں ایسے تنگ نظر یا قائدانہ فیصلوں سے عاری لوگوں نے ڈیرے جمائے رکھا ہے یا ان کو خبر ہی نہیں کہ بلوچستان میں انٹرنیٹ کی سہولیات کا فقدان ہے،کچھ سال ہہلے مکران کے علاقوں کی ابتر صورتحال کو دیکھ کر حکومت نے ان علاقوں کے 4G کو بند کر رکھا ہے،پی ٹی سی ایل کا تو پہلے ہی برا حال تھا،کیچ و پنجگور جیسے بلوچستان کے بڑے شہروں جہاں کوئٹہ کے بعد طلباء کی کثیر تعداد اس علاقوں کے رہائشی ییں 4g کی بندش سے شدید مایوس ہیں۔
حکومت سمیت ارباب اختیار سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ 2015 کے بعد سے ابم تک ان علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کافی تسلی بخش چلا آرہا ہے،ارباب اختیار کو اپنے اس فیصلے ہر نظرثانی کی ضرورت ہے کہ انٹرنیٹ کے بغیر بلوچستان کے نوجوانوں کا مستقبل کہیں اندھیروں میں ڈوب نہ جائے،اب الحمد للہ حالات اس نہج ہر ہہنچ چکے ہیں کہ حکومت اور متعلقہ ادارے انٹرنیٹ کے ذرائع کو مزید بہتر اور 4G کو دوبارہ ری سٹارٹ کیلئے کسی فیصلے پہ پہنچ جائیں،قوی امید کہ ایچ ای سی اپنے فیصلے پر نظرثانی پر غور کر کے بلوچستان کے طلباء کو مذید احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچا پائیں گے ۔
Comments