تحریر: حافظ اسد اللہ
کوئی کہتا ہے محنت میں عظمت ہے تو کوئی کہتا ہے کہ غربت بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک غریب کا بچہ سکول جا کر کونسا تیر مارے گا۔یہ تعلیم کیا ہے اگر ہے بھی کچھ تو کسی امیر زادہ کے بچے کامیراث ہوگا۔ہمیں تعلیم سے کیا غرض ہم تو پہاڑوں میں رہتے ہیں۔آئیے ایک پر عزم دوست کا پہاڑوں سے گولڈ میڈلسٹ تک کا سفر آپ کو سناتا ہوں۔غربت رکاوٹ نہیں محنت میں عظمت ہے اس محاورے کا عملی نمونہ بلوچستان یونیورسٹی سے فارغ شدہ محنت کش بیٹے عبدالصمد ساسولی نے بلوچستان یونیورسٹی کے 18ویں کانوویکشن میں گولڈ میڈل پہنتے ہوئے دکھا دیا۔طالب علم عبدالصمد کا تعلق ضلع قلات کے ایک پسماندہ دیہات جو کہ سٹی سے 45 کلو میٹر دور نیمرغ سے ہے۔جس نے بلندیوں کے سفر میں غربت کو آڑے نہیں آنے دیا۔اور نہ ہی خود کو نیمرغی،پہاڑی اور دیہاتی ہونے کے ناتے گم سم رکھا۔
عبدالصمد نے اپنا تعلیمی کیرئیر نیمرغ پرائمری اسکول سے شروع کیا اور 8ویں کلاس تک سکول پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے ساتھ کھیتی باڑی بھی کرتا رہا۔عبدالصمد کا والد اس وقت بلوچستان پولیس میں بطور کانسٹیبل اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔گھریلو اخراجات کی وجہ سے 8th کلاس کے بعد باصلاحیت طالبعلم عبدالصمد کے سامنے پہلی رکاوٹ کھڑی ہوئی وہ قرب و جوار میں ہائی سکول کا نہ ہونا تھا۔جبکہ والدین کا سرمایہ اتنا نہیں تھا کہ اسے گھر سے باہر حصول تعلیم حاصل کر نے بجھوا دیتے۔
ارادہ جن کے پختہ ہو نظر جن کے خدا پر ہوں
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
عبدالصمد نے اپنے دیہات میں چند افراد کو ”صاحب” کے نام پر بہت زیادہ محترم پایا۔جن میں بشمول اسکے اپنے والد بھی تھے۔اسے معلوم ہوا کہ معاشرے میں پولیس وردی اور استاد کا جو مقام ہوتا ہے وہ عام شہریوں کو حاصل نہیں چونکہ اس وقت اس کے علاقہ میں اسے یہی 2 پیشوں کے بارے میں علم تھا۔تو اس نے عزم کر لیا کہ مجھے بھی انہی میں سے کوئی ایک پروفیشن میں جانا ہے۔اس نے اپنے والدین کی بڑی منت سماجت کے بعد انہیں منوالیا کہ اسے مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے قلات شہر بجھوا دے۔سن 2009 میں عبدالصمد کا داخلہ کلاس 9th میں گورنمنٹ داؤد ماڈل ہائی سکول قلات میں ہوا۔جہاں عبدالصمد نے سکول کیساتھ سیاتھ انگلش لینگویج سینڑ سے ا پنی انگلش میں بھی بہتری لائی۔ڈگری کالج قلات سے ایف ایس سی کرنے کے بعد کالج کے اساتذہ کرام نے عبدالصمد کے مزید حوصلہ افزائی کی کہ آپ بہت کچھ کر کے دکھا سکتے ہو اگر مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے کسی بڑے شہر کا رخ کیا جائے۔ لیکن اس سے بڑھ کر والدین سپورٹ نہیں کر سکتے تھے۔ ”میرے ساتھ عبدالصمد ایک دفعہ ذکر کر رہا تھا کہ ایف ایس سی کے وقت اسکے والد محترم پولیس سے ریٹائر ہو رہے تھے تو میں نے اسے عرض کیا کہ ابا جان ریٹائرمنٹ کے کچھ پیسے میری تعلیم پر لگا دو میرے اندر صلاحیت موجود ہے میں کچھ بن کر دکھاؤں گا۔والد محترم نے اب کے بار سپا ہی بننے کا آپشن سامنے رکھا لیکن میں نے بضد اپنی بات منوا لیا۔
مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے گورنمنٹ ڈگری کالج کوئٹہ کا رخ کیا وہاں دوستوں کے ساتھ ایک دفعہ یونیورسٹی کی ایک کانوویکشن میں بیٹھنے کا موقع ملا جہاں میں نے دیکھا کہ گورنر بلوچستان طلباء وطالبات کو میڈل پہنا رہے تھے تو میں نے دل ہی دل میں سوچ لیا کہ آج سے میں بھی اتنی محنت کروں گا کہ اسی اسٹیج پر مجھے بھی ایک دن گولڈ میڈل پہنے کیلیے بلایا جائے لیکن سوچا میں پاگل ہو گیا ہوں یہ تو امیر زادوں کے بچے ہونگے اور انہوں نے بنیادی تعلیم کوئٹہ جیسے شہر سے حاصل کیا ہو گا،بھلا میں کیسے انکا مقابلہ کر سکتا ہوں؟ اور پھر جلد ہی میں نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر خیالات مثبت ہو ں تو اللہ راستہ بناتا ہے۔
سن 2017 میں اساتذہ اور دوستوں کی مشاورت سے یونیورسٹی آف بلوچستان میں لائبریرین انفارمیشن سائنسز میں داخلہ لیا۔جاتے ہی یونیورسٹی کی دنیا کچھ عجیب محسوس کیا۔اب کے بار یہ سمجھنے لگا کہ یہاں شاید وہ طالبعلم کامیاب ہو سکتا ہے جنہیں پینٹ شرٹ،ٹائی اور عینک میسر ہو۔ میں تو کتابیں کہاں سے خرید کر لاوں گا؟ میں ایک سپاہی کا بیٹا ہوں اور کہاں سے آیا ہوں پتا نہیں ان کے ساتھ کلاسز میں بیٹھنے دینگے کہ نہیں:لیکن خود کو ایک بار پھر سمجھانے لگاکہ پرانے،پھٹے کپڑے اور جوتے علم حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں بنتے۔ شروع شروع میں خود کو کلاس کا نالائق ترین طالبعلم تصور کرتا تھا چونکہ میں نے پہلی مرتبہ یہ دیکھا تھا کہ استاد کیساتھ طالبعلم خود اعتمادی کیساتھ بات کر سکتا ہے۔
میں نے خود کو آگے دن بدن بہتر محسوس کرنے لگا کیونکہ کلاس میں کئی مرتبہ اساتذہ کرام نے میری محنت کو سراہا اور طلباء کے سامنے میری محنت کو ایک مثال کے طور پر پیش کرتے تھے۔
طالبعلم عبدالصمد کو نہ یونیورسٹی کے کینٹین پر بیٹھنے کا موقع ملتا اور نہ ہی اسے آوئٹننگ کیلیے جانا تھا وہ صرف اور صرف کتابوں کیساتھ مشغول رہتا۔عبدالصمد کہتا ہے کہ میں اس دن سے خود کو ٹاپر محسوس کرنے لگا جب میرے کلاس فیلوز میرے پاسPresentation کے ٹپس پوچھنے آئے اور کہنے لگے کہ ٹیچرز آپکے بہت تعریف کرتے ہے آپ نے بنیادی تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے؟
عبدالصمد کہتا ہے کہ میں نے جب فرسٹ سمسٹر کے رزلٹ کا سنا تو ڈر کی وجہ سے کسی سے رزلٹ کا تذکرہ نہیں کیا۔میں نے سوچا کہ بہت مشکل ہے کہ پہاڑوں سے آیا ہوا ایک بندہ یونیورسٹی میں پاس ہو۔ جب رزلٹ چیک کررہا تھا تو اپنے نا Z سے A کی طرف ڈھونڈنا شروع کیا لیکن الحمداللہ نام ٹاپ پر آویزاں تھا۔اس دن میں نے مزید سمجھا کہ میں وہی کر سکتا ہو جس کی چاہت ہے مجھے۔ عبدالصمد نے مزید محنت پر زور دیا اور اپنی پوزیشن کو برقرار رکھتے ہوئے آخر کار فائنل رزلٹ میں اپنی کلاس میں ایک دفعہ پر خود کو ٹاپر پایا اور بطور گولڈ میڈلسٹ نامزد ہوا۔26 اکتوبر 2021 کو بلوچستان یونیورسٹی کے 18ویں کانوویکشن میں گورنر بلوچستان سید ظہور آغا کے ہاتھوں بالا آخر میڈل پہن کر اپنا خواب پورا کر لیا۔
یاد رہے کہ اس کامیابی کے علاوہ عبدالصمد 31 جولائی 2019 کو موٹر وے پولیس میں بطور جونئیر پیٹرول آفیسر منتخب ہوا جہاں کورس کے دوران انکے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں پبلک سروس کمیشن نے آسامیوں کا اعلان کیا۔6 ماہ کی کورس ختم کرنے کے بعد ضلع قلات میں ڈیوٹی سر انجام دینے لگا۔ جہاں وہ ڈیوٹی کیساتھ ساتھ اپنی فیلڈ میں تیاری جاری رکھی اور پہلی مرتبہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ٹیسٹ دے کر ایک بار پھر اوپن میرٹ پر ٹاپ کیا جو کہ آجکل گورنمنٹ ڈگری کالج قلات میں بطور لائبریرین انفارمیشن سائنسز B-17 اپنے خدمات سر انجام دے رہا ہے۔عبدالصمد کا یہ سفر تمام طلباء کیلیے ایک موٹیویشن ہے۔سچ ہے خیالات صحیح تو حالات رکاوٹ نہیں۔ عبدالصمد کی کامیابی کا یہ سفر یہاں اختتام نہیں وہ اس سے بڑھ کر پاکستان سول سروسز کی طرف کوشاں ہے۔ اس باصلاحیت طالبعلم کا یہ سفر تمام طلباء کیلیے ایک سبق ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے خلوص محنت، مسلسل جدوجہد ضروری ہے نہ کہ حالات کو بہانہ بنا کر خود کو بری الذمہ ٹھرایا جائے۔
Comments