Latest News

معصوم پری کی آخری چیخ

 پروفیسر غلام دستگیر صابر نو شکی

آج سے صرف تین دن پہلے لسبیلہ کے مقام پر حادثے کا آپ نے سنا اور ویڈیو دیکھی ہوگی۔۔یہ لسبیلہ بھی عجیب شہر ہے اسی شہر سے بلوچستان کو تین وزراء اعلیٰ ملے۔دو دفعہ جام غلام قادر ایک دفعہ اس کا بیٹا جام محمد یوسف اور اب جام کمال خان ۔اور اسی کے شہر میں پورے ستائیس لوگ جن میں چند پھول جیسے معصوم بچے بھی شامل تھے چند منٹوں میں مندہ جل گئے ۔

آدھے گنٹھے تک بس کے اندر سے دردناک انسانی چیخیں سنائی دیتی رہیں ۔۔لوگ دور سے ان کی ویڈیو بناتے رہے لیکن تینوں وزراء اعلیٰ کے شہر میں ایک بھی ایمبولینس نہیں تھا ۔۔ویسے ایمبولینس کی ضرورت ہی نہیں۔ان کو مرناتھا  مرگہے بات ختم ۔ کیونکہ یہ سارے غریب لوگ تھے ہم حکومت اور حکمرانوں کو کیوں الزام دیں۔ غریب کی قسمت میں  بھوکا مرنا ۔بغیر علاج کے مرنا۔ قحط سے مرنا وغیرہ  ویسے آپ نے کبھی سناہے کہ کسی سردار میر ملک وزیر وزیر اعلیٰ  کا بیٹا بھوکا پیاسا یا سرکاری اسپتال میں مر گیا  ۔نہیں نہیں ان کے لاڈلو ں کے نزلہ زکام کا معلاج بھی آغا خان اسپتال میں ہوتا ہے  ۔ان کے لاڈلے ہواٰئ جہازوں یا لینڈ کروزر گاڑی میں گھومتے ہیں  ۔ان کی عورتیں اور بچوں کو کبھی آپ نے کسی بس  لوکل یا رکشہ یا ٹریکٹر ٹرک میں سوار دیکھا ہے؟؟؟ نہیں یہ بہت باعزت  بیبیاں ہوتی ہیں  یہ لوکل بس,رکشہ وغیرہ صرف غریب اور بے عزت لوگوں کی سواریاں ہیں ۔

آپ کو یاد ہوگا کہ جب صدر زرداری کوہیٹہ آہے تو پروٹوکول کی وجہ سے سارے راستے بند تھے۔تب کوہیٹہ شہر کے ایک سڑک کے درمیان ایک رکشہ کے اندر بچے کی پیدا ہش کی تکلیف میں ایک غریب عورت نے بچہ جنم دیا ۔ابھی لسبیلہ میں جو ستائیس انسان زندہ جل گہے وہ غریب ہی تھے ۔ان میں جام کمال، قدوس بزنجو، سردار اختر جان مینگل، ڈاکٹر مالک بلوچ،اسد بلوچ، نواب مگسی، سردار ثناءاللہ زہری، صادق سنجرانی، ظفراللہ جمالی، نواب گزین مری، شاہ زین بگٹی وغیرہ کا کوئی بیٹا، بیٹی، بھائی بہن شامل نہیں تھا ۔۔اللہ پاک ان سب کی حفاظت کرے آمین ۔۔لیکن وہ پھول جیسی معصوم بچے بھی تو کسی کے بچے تھے ۔اپنی ماں کی گود میں لپٹی ہوئی معصوم پری کی جلی ہوئی لاش بھی کسی کی بیٹی تھی۔۔۔اگر خدا نخواستہ وہ پھول جیسی بیٹی کسی اہم پی اے، وزیر، مشیر، کسی نواب، سردار کی بیٹی ہوتی تو۔۔۔۔۔اس ویڈیو میں سب کی چیخ و پکار کے ساتھ اس ممعصوم پری کی چیخ سب سے زیادہ تھی۔۔جو کہتی تھی اماں مجھے بچاو۔۔بابا مجھے بچاو۔۔میرے لا لا۔۔۔۔کہاں ہو۔۔۔آگ میرے نازک بدن کو جلا رہی ہے ۔۔میرے بال جل گئے ہیں ۔۔میرے ہاتھ پاؤں جل رہے ہیں ۔۔میرا سارا نازک جسم جل رہا ہے ۔۔تب آگ ظالم اسکو جھلا کر بھسم کر دیتی ہے ۔۔تھوڑی دیر پہلے اپنی اماں کی گود میں ہنستی مسکراتی معصوم پری اب اپنی ماں کے ساتھ زندہ جل گئی ۔۔۔لیکن اس کی چیخیں زندگی بھر ان اندھے گونگے، بہرے حکمرانو نوابوں سرداروں اور ریاست مدینہ کے جھوٹے حکمرانوں کو نہیں چھوڑیں گے ۔

اس معصوم پری کی جھلستی لاش سے اب ایک ہی چیخ اور فریاد آرہی ہے کہ بے شک ہماری لاشوں پر سیاست کرو۔۔ایک دوسرے پر الزامات لگاو ۔ہماری لاشوں کے ساتھ تصویریں کھینچ لو۔۔لیکن خدارا بلوچستان کے کھربوں روپے کے بجٹ سے ایک ایک ایمبولینس بھی خریدو ۔۔بے شک ہم بھوک بیماری سے مر جائیں لیکن کم ازکم زندہ نہ مریں۔۔یاد رکھو حکمرانوں تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ کل تمہارے ساتھ ایسا ہو۔۔ہماری بد دعا سے بچو۔۔موت سے کوئی نے بچ سکتا ۔۔تم بلٹ پروف گاڑی میں گھومو یا جہازوں میں ۔۔۔۔۔۔موت سے اور عبرت ناک موت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔۔۔۔۔۔۔زیادہ نہیں صرف ایک مثال ۔۔دس سالوں تک اس ملک کے صدر ۔۔۔جنرل ضیاءالحق کی موت کو یاد رکھو ۔۔۔

Comments
Print Friendly, PDF & Email