Latest News

استاد کا مقام

تحریر: سیدہ رابعہ غرشین

دورِ حاضر دنیا کے گزشتہ ادوار سے ذیادہ ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ دور ہے۔ اس ترقی میں اساتذہ کے ادا کردہ کردار کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ان کے وجود کے بغیر نامکمل ہے۔۔۔۔۔ ان کی کھوج سے ہی سب نامور شخصیات وجود میں آئی ہیں۔
مگر اس دور ِجدید کا المیہ یہ ہے کہ ناصرف نوجوان نسل بلکہ بچہ پارٹی بھی اساتذہ کو وہ عزت اور مقام دینے کی روادار نہیں ہے جسکے وہ مستحق ہیں۔۔۔۔۔ بقول قاسم علی شاہ ”ان کے لئے امی جان مام ہے اور ابو جان پوپ ہیں اور ٹیچر صرف ٹیچر ہے چونکہ وہ فیس لیتا ہے۔

سوچنے کا مقام ہے آخر ان ننھے ذہنوں میں ایسی باتیں کہاں سے آتی ہیں۔؟ بچے تو معصوم ہوتے ہیں ان کی زبان تو وہی بولتی ہے نہ جو ان کے کان معاشرے کے منہ سے سنتے ہیں۔ اور پھر بڑے ہو کر بھی عقل و شعور رکھنے کے باوجود وہ اساتذہ کی عزت نہیں کرسکتے کیونکہ برتن میں سے نکلتا وہی ہے نہ جو اس میں ڈالا جاتا ہے۔

پہلے دن جب ایک بچہ سکول جاتا ہے تو اس کی مثال ایک نابینا انسان کی سی ہوتی ہے استاد ہی اس کی انگلی پکڑ کر اسے منزل کا رستہ دکھاتا ہے اسی کے عطا کردہ علم کے نور سے وہ دنیا کو پرکھتا ہے۔ تب ہی تو سکندرِ اعظم کہتے ہیں کہ ” میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا مگر میرے استاد (ارسطو) نے مجھے اسی زمین سے اوجِ ثریا پر پہنچا دیا۔“
اور حقیقت بھی یہی ہے والدین جسم کو پروان چڑھاتے ہیں جبکہ استاد روح کو غذا فراہم کرتا ہے

تاریخ کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھیں تو علم و ادب کی ایسی ایسی داستانیں ملتی ہیں کہ انسان دنگ رہ جاۓ۔ تب شاگرد تو اساتذہ پر جان نچھاور کرتے ہی تھے والدین نے بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ کہتے ہیں ایک دفعہ خلیفہ ہارون الرشید کے برخودار اپنے استاد کے پاٶں پر ایک ہاتھ سے پانی ڈال رہے تھے خلیفہ کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے شہزادے کو ڈانٹتا جس پر استاد سخت شرمندہ ہوا اور وضاحت پیش کی تو خلیفہ ہارون الرشید فرمانے لگے ”میں اس بات پر غصہ نہیں ہوں کہ شہزادہ آپ کو وضو کروا رہا ہے بلکہ میں اس بات پر برہم ہوں کہ شہزادے کا دوسرا ہاتھ خالی ہے پھر بھی وہ ایک ہاتھ سے پانی کیوں ڈال رہا ہے“۔

شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کا اپنے اساتذہ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب علامہ اقبالؒ کو ”سر“ کا خطاب دیا جانے لگا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ”جب تک میرے استادِ محترم میر حسن صاحب کو ”شمس العلماء“ کا خطاب نہیں دیا جاۓ گا میں نے ”سر“ کا خطاب قبول نہیں کرنا۔

اور آج ہم کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے اساتذہ کے لئے ایسا کام کرنا تو درکنار ہم تو انہیں ان کے اپنے بل بوتے پر ترقی کرتا ہوا بھی نہیں دیکھ سکتے۔ ہر جگہ ان کے خلاف ایک محاذ کھول لیتے ہیں۔۔۔۔۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ آج ہم نے اس پیشے کو کاروبار بنا لیا ہے ہر تعلیمی ادارے میں ماہانہ فیس وصول کی جاتی ہے مگر یہ تو حالات کا تقاضا ہے کیونکہ وقت اب پہلے جیسا نہیں رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔پر دل تو اب بھی وہی ہیں نہ۔۔۔۔۔۔ اور استاد کا مقام بھی اپنی جگہ پر ہے تو پھر ہم کون ہوتے ہیں چند برے لوگوں کی وجہ سے تمام اساتذہ کو برا بھلا کہنے والے۔۔۔۔۔۔۔؟ ایک استاد پوری رات آپ کے لئے لیکچر تیار کرتا ہے صبح ٹائم پر آکر بڑی لگن سے آپ کے الجھے ذہن کی گرہیں کھولتا ہے اپنا پورا دن اسی کوشش میں صرف کردیتا ہے۔ اور بدلے میں آپ سے کیا مانگتا ہے۔۔۔؟ فقط تھوڑی سی عزت۔۔۔۔۔۔۔۔اگر وہ عزت بھی نہیں کرسکتے تو نہ کریں مگر بےعزتی کرنے کا حق بھی اللّه نے آپ کو نہیں دیا۔

اچھے لوگوں سے ابھی دنیا خالی نہیں ہوئی لہٰذا میں اس بات سے بھی انکار نہیں کرسکتی کہ اس افراتفری کے دور میں اساتذہ سے عقیدت رکھنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں کے سوا اکثریت کا دل آج بھی ان کےاحترام سے لبریز ہے۔

اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ ” ایک دفعہ میں انگلینڈ کی ایک یونیورسٹی میں لیکچر دینے گیا۔ لیکچر کے بعد میں اور میرا پروفیسر دوست دروازے کے پاس کھڑے ہوکر بات چیت کرنے لگے۔ ایسے میں ان کے اسٹوڈنٹ آتے اور دروازے کے پاس سے پھلانگ کر جاتے مجھے بڑی حیرت ہوئی آخر مجھ سے رہا نہ گیا میں نے کہا کہ بھئی یہ کیا حرکت ہے۔۔۔۔۔۔؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس لئے پھلانگ کر گزر رہے ہیں کیونکہ ہمارے معزز استاد کا سیایہ دروازے کے راستے میں آرہا ہے ہم اس پر پاٶں رکھ کر آگے نہیں بڑھنا چاہتے۔

کہتے ہیں قومیں وہی کامیاب ہوتی ہیں جو اساتذہ کا ادب کرنا جانتی ہوں۔ اور استاد صرف وہ نہیں ہوتا جو آپ کو سکول کالج میں تعلیم دے بلکہ زندگی میں ہر وہ شخص جو آپ کو کسی ہنر سے روشناس کرواۓ استاد کا درجہ رکھتا ہے۔ اچھے استاد اللّه کی طرف سے ہمارے لئے تحفہ ہوتے ہیں ان کی دل سے عزت کیا کریں تاکہ کل دنیا آپ کو وہ عزت لوٹاۓ۔ لیکن اگر آپ کے دل میں ان کے لئے ادب نہیں ہے نہ تو کوئی زبردستی نہیں کرواسکتا مگر یاد رہے کامیابی کے دروازے کی چابی آپ کو تب ہی ملے گی جب آپ ادب کرنے والوں میں سے بنیں گے۔
کیونکہ سیانے کہتے ہیں نا۔۔۔۔۔۔۔
باادب بانصیب
بے ادب بے نصیب

میرے تمام اساتذہ بالخصوص ڈاکٹر منوج کے نام جنہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر میرا ”دی بیسٹ“ میرے اندر سے باہر نکالا۔

Comments
Print Friendly, PDF & Email