تحریر: جعفر قمبرانی
اس جدید دور میں جہاں دنیا ٹیکنالوجی اور معیشیت کی جنگ لڑ رہی ہے تو وہی لوگ تعلیم کو فروغ دینے کیلۓ بہت آگے نظر آتے ہیں. شاید دنیا میں آج تک ہونے والے ایجادات اور دریافت ہونے والے چیزوں میں سب سے بڑی کارکردگی علم و شعور کی ہے جس نے انسان کو اشرفالمخلوقات ہونے کا دعویدار بنادیا. قوموں کی عروج و زوال تو بہت دیکھی مگر جہاں قوموں کی زوال نے سر اٹھایا تو وہی تعلیم کو انکی پردہ داری اور عزت افزاہی کرتے دیکھا, قلم کو تھامے قوموں کی زوال تو دیکھی مگر ان کو رسوا ہوتے کبھی نہیں دیکھا.
جہاں اقوامِ عالم کو تعلیم کے پیچھے مر تے دیکھا اور ان کی آۓ دن کامیابیوں اور کاوشوں کی صلہ بھی پاتے دیکھا ہے, جہاں لوگ انسانیت کی بقاء کیلۓ ‘ایس ڈی جیز’ پر پُرجوش کام کرتے نظر آتیں ہیں وہی ہماری 64 فیصد نوجوان (جو کسی قوم کی سب سے بڑی سرمایہ ہوتی ہے) کو کہی غیر اہم اور فضولیات میں غرق ہوتے دیکھا. کیا واقعی ہم ماسلووز کی “ہیرارچی آف نیڈز” کے آخری مرحلے (self actualization) سے بہت دور ہے یا تو پھر ہم میں آگے جانے, دنیا کو کچھ کر دکھانے کی ہمت نہیں؟ یا پھر اپنی ناکامیوں کا دھول اڑاتے اڑاتے خود ایک دن اس دنیاء فانی سے دبے آواز اور بے مقصد زندگی گزار کر کوچ کر جانا ہے؟
مغربی دنیا پر نظر ڈالا جاۓ تو دنیا انکی ایجادات اور کارکردگیوں پر رشک کرتے نظر آتی ہیں مگر یاد رہے انکی اس کامیابی کے پیچھے صرف انکی محنت اور مخلصی کے سوا کچھ بھی نہیں. ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ماہانہ ہزاروں ڈالر کی کتاب خریدی اور بیچی جاتی ہیں جو نتیجتاً اُنھیں لکھاری, ادیب اور مصنفوں سے نواز رہا ہے. انہیں میں سے ایک
ڈاکٹر ڈائر کی کتاب “The power of intention” کو مطالع کرتے وقت ایک دلچسپ تحریر ” ہر انسان کو کچھ کرنے کیلۓ یہاں بھیجا گیا ہے اور بد قسمت ہے وہ جو خالی ہاتھ آیا اور گیا بھی تو خالی ہاتھ” پڑھ کر ڈوب جانے لگا کہ کہی ہم ان بدقسمت اور بے مقصد لوگوں کی فہرست میں تو نہیں جو نا دنیا میں رہنے کے اہل ہیں نا ہی خدا کو منہ دکھانے کے قابل.
ایک وقت تھا جب ڈان نیوز پیپر پڑھنا میرا معمول تھا اسی دوران ایک آرٹیکل کو پڑھ کر بہت دیر تک میں یوں حواس باختہ اور کھویا رہا.وہ تحریر کچھ یوں تھا.” ہماری اَسی (80) فیصد لوگ آج کتاب پڑھنے سے قاصر ہے جو کہ عام طور پر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا میں مصروف عمل ہیں…پرانے زمانے میں لوگ کہانیاں اور دوسرے چھوٹے بڑے تحریروں کو شوق سے پڑتے تھیں اور بچوں کو سنایا کرتے تھیں جنکی مثبت اثرات مرتکب ہوتے تھیں مگر اس دورِ جدید میں کتابوں کی جگہ استمال ہونے والی اس ہالہ (موباہل) نے انسانوں کی سوچ سمجھ اور صلاحیتوں کو زنگ آلود کر ڈالا ہے”
فسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ کتاب , آرٹیکلز اور سبق آموز کہانیوں کی جگہ آج انٹرنیٹ نے لے لی جو ضروریات میں کم اور فضولیات میں ذیادہ استعمال ہونے لگی ہے. دماغ کو کمزور اور سوچنے کی صلاحیتوں کو چھیننے والی آلہ جات کو اگر ضروریات سے بڑھ کر استعمال نہ کیا جاۓ تو آج بھی ہم میں چھپے صلاحیتوں کی کمی نہیں جنہیں صرف عیاں کرنے کی ضرورت ہیں اور آج بھی ہم مہاتما گاندھی , علامہ اقبال اور محمد علی جناح جیسے رہنماء پیدا کرنے اور دنیا سے ہر میدان میں آگے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر ہماری ذہن اور سوچ کو اجاگر کرنے اور اصل مقصد پر لانے کی ضرورت ہے جو صرف مطالع کرنے سے ہی ممکن ہے
Comments