Latest News

قلات کے خصوصی افراد تعلیم سے محروم کیوں؟

یوسف عجب بلوچ

ان والدین کے لیے عموما یہ فکر اور درد قابل برداشت نہیں ہوتی جب ان کے اولاد کسی معذوری کے ساتھ جنم لیتے ہیں کیونکہ یہ فکر وقتی نہیں ہوتی بلکہ ایک طویل عرصے تک یا تا دم مرگ ساتھ رہتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے فکرمند ہوتے ہیں کیونکہ ان کو ہروقت کسی نہ کسی طرح مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور خاص طور پر ان کا ذریعہ معاش ایک اہم مسلہ ہوتا ہے۔

یہی غم ان دنوں قلات کے ۴۰ سالہ سکند ر خان کو کھائے جارہا ہے۔ سکندر خان کے دو بچے ہیں اور دونوں ہی پیدائشی معذور ہیں اور چلنے پھرنے سے محروم ہیں ۔ ۱۲سالہ دلاور خان اور۱۵ سالہ محمد آصف بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اپنے مزدور پیشہ والد کے لیے فکر کا سامان بنتے جارہے ہیں ۔

سکندر خان کا کہنا ہے : ” میں اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پریشان ہوں کیونکہ ان کے ہم عمر بچے ان دنوں سکولوں میں پڑھتے ہیں اور میں تو ان کو پڑھا بھی نہیں سکتا ۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ عام بچوں کے درمیان ان کا پڑھنا یا کچھ سیکھنا مشکل ہوگا۔ اگر قلات میں معذور افراد کے لیے کوئی خاص اسکول ہوتا تو میں ضرور ان کو وہاں لے جاتا یا ان کو کوئی ہنر حاصل کرنے کا موقع دیتا”

سکندر خان کا کہنا تھا کہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ا ن کی ضروریات بھی بڑھتی جائینگی۔ علم حاصل کرنے یا کوئی ہنر سیکھنے کی صورت میں گو کہ وہ کسی کی مدد کے منتظر ہوتے ہیں مگر اس قابل تو ہونگے کہ ذریعہ معاش کے لیے وہ کسی کے محتاج نہ ہوں۔

یہ مسلہ صرف قلات میں نہیں بلکہ عموما بلوچستان کے تمام اضلاع میں یہی حال ہے جہاں معذور بچوں کے والدین اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے پریشانی کا شکار ہیں۔ اب تک صرف کوئٹہ میں دو ، ضلع سبی میں ایک اور ضلع مستونگ میں صرف ایک اسپیشل سکول ہے جن میں مخصوص افراد کو تعلیم دی جاتی ہے مگر بلوچستان کے دیگر اضلاع میں یہ سہولت موجود نہیں ہے۔

محکمہ سماجی بہبود ضلع قلات کے آفیسر محمد اقبال بلوچ کے مطابق اس وقت ضلع قلات میں ۴۰۰ سے زیادہ معذور افراد رجسٹرڈ ہیں مگر دیگر بہت سے ایسے ہیں جن کی اب تک ہم ہمارے آفس تک رسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ معذوروں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق قلات شہر سے ہے مگر ان کے تعلیم و تربیت کے لیے نہ ہی کوئی سکول ہے اور نہ ہی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ضلع قلات کے ایک تحصیل خالق آباد کے لیے تین سال قبل ایک خصوصی سکول کی منظوری ہوئی تھی مگر تاحال اس پر حکومت کی طرف سے کو ئی عمل نہیں ہوسکا۔

ضلع قلات میں معذور افراد کے فلاح وبہبود کے لیے کوشاں تنظیم گندار سوشل ڈیولپمنٹ کے صدر موسی خان مینگل نے بتایا کہ خصوصی افراد کو معاشرے اور حکومت کی خصوصی توجہ درکار ہے ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس سے وہ مزید مایوسی اور محتاجی کا شکار ہونگے۔ موسی خان مینگل نے مزید بتایا کہ نہ صرف قلات بلکہ بلوچستان کے تمام اضلاع میں سینکڑوں خصوصی افراد کے لیے کوئی خاطر خواہ توجہ ، امداد اور تعلیم یا ہنر حاصل کرنے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر حکومت کی جانب سے خصوصی توجہ دی جائے تو یقیناً معذور افراد معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

انجمن معذوران قلات کے جنرل سیکرٹری سفر خان نے کہا کہ روزگار اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے جس طرح عام لوگ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اسی طرح یہ معذور افراد بھی معاشرے کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ مایوس ہوکر منشیات یا کسی اور برائی کی طرف راغب ہوسکتے ہیں۔

قلات میں معذورں کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ معذور افراد مدارس یا سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ ان کو ایک مخصوص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کو نفسیاتی مسائل کا سامنا بھی ہوتا ہے جس کے لیے ان کو ایک مخصوص تعلیم یا تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سب ایک عام استاد کے بس کی بات نہیں۔ ان کے مطابق گذشتہ حکومتیں معذور افراد کو کسی نہ کسی طرح سے نظر انداز کرتی رہی ہیں نہ صرف ان کے فلاح و بہبود کے لیے کوئی کام کیا ہے اور نہ ہی ان کے تعلیم اور ملازمت کے لیے مختص کوٹہ پر عمل درآمد ہورہا ہے۔

ضلع قلات سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی اور وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیا ء اللہ لانگو نے معذور افراد کے مسائل پربات کرتے ہوے کہا کہ خصوصی تعلیم معذور بچوں کا بنیادی حق ہے اور حکومت اس کی کے لیے کوشاں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ حکومت معذور افراد کے مسائل خاص کر معذور بچوں کی تعلیم کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

میر ضیا ء اللہ لانگو نے مزید بتایا کہ انہوں نے ڈپٹی کمشنرقلات سے اسی حوالے سے ملاقات کی ہے اور صوبایی حکومت نہ صرف معذور بچوں کی بنیادی تعلیم بلکہ معذور نوجوانوں کے لیے ہنر سیکھنے ان کے روزگار کے حصول کے لیے بھی کوششیں کر رہی ہے، بہت جلد ضلع کے معذور افراد کے لیے وہیل چیئر بھی دیے جائینگے۔ قلات میں حکومت کی طرف سے منظور شدہ اسپیشل اسکول پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ۲۰۱۹ کی بجٹ میں اس اسکول کے لیے فنڈز مختص کروانے میں اپنا کردار ادا کریں کے گے تاکہ معذور بچے تعلیم حاصل کرکے معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے معاشرے کے تعمیر اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

 2019پندرہ فروری   

Comments
Print Friendly, PDF & Email